مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ دیدار الٰہی کا بیان ۔ حدیث 221

کھلی آنکھوں سے اللہ کا دیدار :

راوی:

عن جرير بن عبد الله قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إنكم سترون ربكم عيانا " . وفي رواية : قال : كنا جلوسا عند رسول الله صلى الله عليه و سلم فنظر إلى القمر ليلة البدر فقال : " إنكم سترون ربكم كما ترون تضامون في رؤيته فإن هذا القمر لا استطعتم أن لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا " ثم قرأ ( وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها )
متفق عليه

" اور حضرت جریربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " وہ وقت آنے والا ہے جب (قیامت میں ) تم اپنے پروردگار کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھو گے ۔" ایک روایت میں ہے حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بیان کیا کہ (ایک دن ) ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودھویں شب کے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا : " تم اپنے پروردگار کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو ، اس (پروردگار کو دیکھنے میں تم کوئی رکاوٹ اور پریشانی محسوس نہیں کرو گے پس اگر تم سے ہو سکے تو تم اس نماز کو جو سورج نکلنے سے پہلے کی ہے (یعنی نماز فجر ) اور اس نماز کو جو سورج ڈوبنے سے پہلے کی ہے (یعنی عصر ) نہ چھوڑو تو یقینا ایسا کرو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وَسَبِّ حْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوْبِ) 50۔ق : 39) اور اپنے پروردگار کی حمد وپاکی بیان کرو یعنی نماز پڑھو سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے۔" (بخاری ومسلم)

تشریح :
جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔" یہ تشبیہ " دیکھنے " کی " دیکھنے " کے ساتھ ہے نہ کہ " دیکھی جانے والی چیز " کی " دیکھی جانے والی چیز " کے ساتھ اس جمال وابہام کی تفصیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ تم اپنے پروردگار کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح چاند کو دیکھ رہے ہو تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ تم جس طرح اس وقت چودھویں شب کے چاند کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو اور اس چاند کے نظر آنے میں تمہیں کوئی شک وشبہ نہیں یہ مراد ہرگز نہیں تھی کہ جس طرح یہ چاند تمہارے سامنے ہے اور ایک خاص جگہ پر اور ایک خاص سمت میں محدود وقائم نظر آرہا ہے اسی طرح تمہارے پروردگار کی ذات بھی تمہارے سامنے کسی خاص جگہ اور کسی خاص سمت میں محدود وقائم نظر آئے گی۔
" لاتضامون فی رویۃ" (اس کو دیکھنے میں تم کوئی رکاوٹ وپریشانی محسوس نہیں کروگے )" میں لفظ تضامون اس طرح بھی منقول ہے اور تضامون بھی نقل کیا گیا ہے لیکن زیادہ تضامون ہی نقل ہوا ہے اور اس صورت یہ لفظ ضم سے ہوگا جس کے معنی " ضرراورظلم " کے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ " پروردگار کے دیدار میں تم پر ظلم نہیں ہوگا کہ کوئی دیکھے اور کوئی محروم رہے یا اس کے دیدار میں تم آپس میں ایک دوسرے پر کوئی ظلم وزیادتی نہیں کروگے کہ ایک دوسرے کے دیکھنے کا انکار کرو اور کسی کو جھٹلاؤ ۔" دوسری صورت میں یہ لفظ تضام سے ہوگا جس کے معنی ہیں آپس میں ایک دوسرے سے ملنا، اژدہام کرنے ، دھکا پیل مچانے اور ایک دوسرے پر گرنے پڑنے کی نوبت نہیں آئے گی بلکہ ہر شخص اپنی اپنی جگہ رہ کرنہایت اطمینان وفراغت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو دیکھے گا جیسا کہ چودھویں شب میں چمکتے چاند کو دیکھنے کے لئے اس طرح کی زحمت وپریشانی اٹھانا نہیں پڑتی ، بخلاف پہلی تاریخ کے چاند کے ، وہ دھندلا اور باریک ہونے کی وجہ سے صاف نظر نہیں آتا اور اس کے دیکھنے کے لئے خاصا اہتمام اور جدوجہد کرنا پڑتی ہے ۔
" اگر تم سے ہو سکے کہ تم اس نماز کو…۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ فجر اور عصر کا وقت بہت بابرکت اور اس وقت کی نمازیں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہیں اس لئے تم ان نمازوں کی پابندی کا زیادہ خیال رکھو اور مقدور بھر کوشش کرو کہ یہ نمازیں فوت نہ ہونے پائیں، نیز اس بات کو ذہن میں رکھو کہ نماز کی پابندی کرنے والا اس امر کا زیادہ لائق ہے کہ اس کو پروردگار کا دیدار نصیب ہو کیونکہ نماز کی پابندی ہی سے شہود ذات کا وصف وملکہ میسر ہوتا ہے !یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد گرامی جعلت قرۃ عینی فی الصلوۃ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ) میں اشارہ فرمایا ہے واضح رہے کہ یوں تو یہ اہمیت تمام نمازوں کی ہیں لیکن اس موقع پر فجر وعصر کی نماز کو اس لئے خاص کیا گیا ہے کہ ان دونوں وقتوں کی نمازیں باقی اوقات کی نمازوں پر فضیلت وبرتری رکھتی ہیں اور اس فضیلت وبرتری کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ صبح کے وقت تو لوگ نیند واستراحت کے جال میں پھنسے رہتے ہیں اور عصر کا وقت دنیا کے کاروبار مثلاً بازار جانے وغیرہ کے چکر میں پھنسنے کا ہے، جو شخص ان دونوں اوقات میں سستی و کوتاہی کا شکار نہیں ہوگا اور روکاوٹوں کے باوجود ان دونوں نمازوں کا خیال رکھے گا وہ دوسرے اوقات کی نمازوں کا خیال بدرجہ اولیٰ رکھے گا جو نسبتا زیادہ سہل وآسان ہیں حدیث میں دونوں اوقات کی نمازوں کو خاص طور پر ذکر کرنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ دونوں وقت دوسرے اوقات کی بہ نسبت زیادہ فضیلت وشرف رکھتے ہیں اور یہ کہ آخرت میں پروردگار کا دیدار ان ہی اوقات میں ہوا کرے گا ۔

یہ حدیث شیئر کریں