مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ دوزخ اور دوزخیوں کا بیان ۔ حدیث 234

ایک دوزخی ایک جنتی :

راوی:

وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يؤتى بأنعم أهل الدنيا من أهل النار يوم القيامة فيصبغ في النار صبغة ثم يقال : يا ابن آدم هل رأيت خيرا قط ؟ هل مر بك نعيم قط ؟ فيقول : لا والله يا رب ويؤتى بأشد الناس بؤسا في الدنيا من أهل الجنة فيصبغ صبغة في الجنة فيقال له : يا ابن آدم هل رأيت بؤسا قط ؟ وهل مر بك شدة قط . فيقول : لا والله يا رب ما مر بي بؤس قط ولا رأيت شدة قط " . رواه مسلم

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن دوزخیوں میں ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ عیش وآرام کی زندگی گزارتا تھا (اور اپنے اس عیش وآرام سے بدمست ہو کر ظلم وجور میں بہت بڑھا ہوا تھا ) پھر اس کو دوزخ میں ایک غوطہ دیا جائے گا (یعنی دوزخ میں ڈبویا جائے گا جس طرح کپڑا رنگ میں ڈبویا جاتا ہے ) اور کہا جائے گا کہ اے ابن آدم ! کیا تونے دنیا میں کبھی کوئی راحت وبھلائی دیکھی تھی اور کوئی عیش وآرام اٹھایا تھا ؟ وہ دوزخی (دوزخ میں ڈالے جانے کے ڈر سے اس قدر سہم جائے گا کہ دنیا کے تمام نازونعم اور ان تمام آسائش وراحت کو فراموش کردے گا جو اس کو حاصل تھیں اور ایسا ظاہر کرے گا جیسے اس کو دنیا میں کوئی راحت ونعمت نصیب ہی نہیں ہوئی تھی چنانچہ وہ کہے گا کہ نہیں میرے پروردگار اللہ کی قسم مجھے کوئی راحت ونعمت نصیب نہیں ہوئی تھی اس طرح جنتیوں میں سے ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ غم والم اور مشقت وکلفت برداشت کرنے والا تھا ، پھر اس کو جنت میں ایک غوطہ دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اے ابن آدم کیا تو نے دنیا میں کوئی غم اٹھایا تھا ، اور کسی مشقت وکلفت سے دوچار ہوا تھا؟ وہ جنتی جنت کی نعمتیں اور راحتیں دیکھ کر اپنے دنیا کے تمام رنج وغم اور کلفت ومشقت بھول جائے گا اور جواب دے گا کہ نہیں میرے پروردگار اللہ کی قسم میں نے دنیا میں کبھی کوئی رنج وغم نہیں دیکھا اور کوئی مشقت وکلفت نہیں اٹھائی ۔" (مسلم)

تشریح :
جنتی کو چونکہ نہایت درجہ کی خوشی حاصل ہوگی اس لئے وہ جواب میں طوالت اختیار کرے گا اس کے برخلاف دوزخی مختصر سا جواب دے کر خاموش ہوجائے گا ۔

یہ حدیث شیئر کریں