مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ ۔ حدیث 261

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت ودوزخ کا مشاہدہ :

راوی:

عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم صلى بنا يوما الصلاة ثم رقي المنبر فأشار بيده قبل قبلة المسجد فقال : " قد أريت الآن مذ صليت لكم الصلاة الجنة والنار ممثلتين في قبل هذا الجدار فلم أر كاليوم في الخير والشر " . رواه البخاري

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ( ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی ، پھر منبر پر چڑھے اور مسجد کے قبلہ کی طرف اپنے دست مبارک سے اشارہ کرکے فرمایا کہ ابھی جب میں نے تمہیں نماز پڑھائی تو مجھے اس دیوار کے سامنے کے حصہ میں جنت اور دوزخ کی تمثیلیں دکھائی گئیں واقعہ یہ ہے کہ میں نے جتنی اچھی چیز اور جتنی بری چیز آج دیکھی ہے اس جیسی اچھی اور بری چیز پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ (بخاری)

تشریح :
لفظ " قبل " ق کے زیر ب کے زبر کے ساتھ بھی منقول ہے اور ان دونوں کے پیش کے ساتھ بھی اسی طرح ق کے پیش ب کے جزم کم ساتھ بھی نقل ہوا ہے ان سب صورتوں میں معنی ایک ہی ہیں یعنی سامنے ہونا ۔
میں نے جتنی اچھی چیز اور جتنی بری چیز آج دیکھی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ کا مطلب یہ تھا کہ جو بھی اچھی چیز انسان دیکھ سکتا ہے اس سے زیادہ اچھی چیز میں نے جنت کو دیکھا ہے اسی طرح جو بھی بری چیز اس دنیا میں دیکھی جاسکتی ہے اس سے بھی زیادہ بری چیز میں نے دوزخ کو دیکھا ہے ۔
یہاں اگر یہ اشکال پیدا ہوتا ہو کہ جنت ودوزخ اس قدر وسیع وعریض ہونے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک دیوار میں کس طرح ممثل ومنور ہو کر آگئیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ کسی بھی چیز کی تمثیل وعکس کے لئے یہ مطلقا ضروری نہیں ہوتا کہ وہ اس چیز کے اصل طول وعرض کے ساتھ منعکس ہو۔ سب سے بڑی مثال پانی یا آئینہ میں کسی چیز کے عکس کی ہے کہ کسی وسیع وعریض باغ یا مکان کا جو پورا عکس پانی یا آئینہ میں آتا ہے وہ اصل باغ یا مکان کے حقیقی طول وعرض کے ساتھ ہرگز نہیں ہوتا ایک بات یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ حدیث کے متعلقہ الفاظ سے یہ لازم نہیں آتا جنت یا دوزخ کی تمثیل یا تصویر دیوار کے اوپر نقش یا کندہ ہوگئی ہو بلکہ ان الفاظ میں ان تمثیل کو دیوار کے سامنے کے حصہ میں دیکھنے کا ذکر ہے جس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ تمثیلیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیوار کی سمت میں دکھائی گئی ہے اور ان تمثیلوں کا وجود کسی اور عالم میں یا کسی اور جگہ ہو ۔ اسی مضمون کی ایک اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ یعنی میں نے جنت اور دوزخ کو اس دیوار کے گوشہ پر دیکھا اس حدیث کے ضمن میں بھی شارحین حدیث نے مذکورہ بالااشکال اور اس کا مذکورہ ہی جواب نقل کیا ہے ۔
بعض علماء نے یہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی یہ مراد نہیں تھی کہ میں نے جنت اور دوزخ کو اس طرح دیکھا کہ ان کی تمثیل دیوار کے سامنے کے حصہ میں تھیں ، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ میں نے (اپنی روحانی آنکھوں سے ) جنت اور دوزخ کو دیکھا ، جب کہ میں قبلہ کی طرف کی دیوار کے سامنے تھا ، اس صورت میں کوئی اشکال واقع نہیں ہوگا۔ واللہ اعلم بحقیقۃ الحال۔

یہ حدیث شیئر کریں