مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ ۔ حدیث 263

پہلے اللہ کے سوا کچھ نہ تھا :

راوی:

عن عمران بن حصين قال : إني كنت عند رسول الله صلى الله عليه و سلم إذ جاء قوم من بني تميم فقال : " اقبلوا البشرى يا بني تميم " قالوا : بشرتنا فأعطنا فدخل ناس من أهل اليمن فقال : " اقبلوا البشرى يا أهل اليمن إذ لم يقبلها بنو تميم " . قالوا : قبلنا جئناك لنتفقه في الدين ولنسألك عن أول هذا الأمر ما كان ؟ قال : " كان الله ولم يكن شيء قبله وكان عرشه على الماء ثم خلق السماوات والأرض وكتب في الذكر كل شيء " ثم أتاني رجل فقال : يا عمران أدرك ناقتك فقد ذهبت فانطلقت أطلبها وأيم الله لوددت أنها قد ذهبت ولم أقم . رواه البخاري

حضرت عمران بن حصین کہتے ہیں کہ ایک دن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ( مشہور اور عظیم قبیلہ ) بنوتمیم کے کچھ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ بنو تمیم کے لوگوں بشارت حاصل کرو ، انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دین کی تعلیمات کی صورت میں) بشارت تو ہمیں عطا فرمادی ، اب کچھ اور بھی عنایت فرما دیجئے ۔ پھر کچھ دیر بعد یمن کے کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ (یمن کے لوگوں تم بشارت حاصل کرلو، بنوتمیم کے لوگوں نے تو بشارت حاصل نہیں کی ، یمن والوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے بشارت حاصل کی، اور ہم اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مذہبی معلومات اور دینی شعور وفہم حاصل کریں، چنانچہ ہم آپ سے ابتدائے آفرینش اور مبداء عالم کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس (کائنات کے وجود میں آنے اور مخلوقات کی پیدائش ) سے پہلے کیا چیز موجود تھی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔صرف اللہ کی ذات موجود تھی (ازل الازال میں ) اس کے ساتھ اور اس کے پہلے کسی چیز کا وجود نہیں تھا ، اور اس کا عرش پانی پر تھا پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کو پیدا کیا اور لوح محفوظ میں ہر چیز کو لکھا ۔ (حدیث کے راوی حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی یہیں تک سن پایا تھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا کہ عمران جاؤ اپنی اونٹنی کو تلاش کرو وہ بھاگ گئی ہے (یہ سنتے ہی میں اپنی اونٹنی کو تلاش کرنے کے لئے نکل کھڑا ہوا ، اور اب میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کاش میں اس وقت مجلس نبوی سے اٹھ کر نہ جاتا بھلے ہی میری اونٹنی جاتی رہتی
(بخاری)

تشریح :
اس موقع پر بنوتمیم کے جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے ان کا مطمح نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اکتساب دین اور حصول معرفت سے زیادہ کوئی دنیاوی طلب وخواہش تھی ، اس لئے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ بشارت حاصل کرو ، یعنی مجھ سے ایسی چیز حاصل کرو اور وہ بات قبول کرو جو جنت کی نعمتوں اور دونوں جہان کی سعادتوں کے حصول کی بشارت کاموجب ہے جیسے دین کے عقائد واحکام سیکھنا اور مذہبی معلومات حاصل کرنا تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ بشارت ہمارے سرآنکھوں پر، دینی عقائدواحکام سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہمیں تسلیم ، لیکن اس وقت ہمارا اصل مقصد کچھ دنیاوی چیزوں کا حاصل کرنا ہے آپ توہماری وہ دنیاوی طلب وخواہش پوری فرمادیجئے پس ان لوگوں نے چونکہ فانی دنیا کوزیادہ اہم جانا اور اس کو مذہبی تعلیمات اور دینی فہم وشعور حاصل کرنے پر کہ جو آخرت کے اجروثواب اور دارین کی فلاح وسعادت کا باعث ہے ، فوقیت دی ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس بات کو ان کی عدم لیاقت اور یقین واعتماد میں ان کے ضعف وکمزوری پر محمول فرمایا اور ازراہ غصہ ان کی طرف سے وہ بشارت کو قبول کئے جانے کی نفی فرمادی ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کے لوگوں سے فرمایا کہ بنوتمیم کے لوگوں نے تو بشارت حاصل کی نہیں ، تم ہی لوگ اس بشارت کو حاصل کرلو۔ بنوتمیم کے لوگوں کے بعد یمن کے لوگ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ، ان کی نیت چونکہ بالکل اور سچی تھی اور ان کی آمدکا اصل مقصد ہی یہ پاک جذبہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دین کی باتیں سیکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے اپنے عقیدہ وایمان کو تازگی بخشیں نہ کہ وہ دنیا کی چیز حاصل کرنے یا کسی پست مقصد کے لئے حاضر ہوئے تھے لہٰذا ان کو بشارت حاصل ہوئی طاعت وقبول کی سعادت ان کے حصہ میں آئی ۔علم وعمل ان کا نصیب بنا اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے جب کہ بنو تمیم کے لوگ دنیا طلبی کے چکر میں پڑ کر ان سعادتوں اور نعمتوں سے محروم رہے اور ان کی کم نظری اور پست ہمتی نہ ان کو نیچے گرا دیا اس سے معلوم ہوا کہ بندہ مؤمن کو ہمیشہ بلند نظر عالی ہمت اور پاک مقصد ہونا چاہے کیونکہ بلند نظری عالی ہمتی اور مقصد کی پاکی بڑے سے بڑے درجہ ومرتبہ کو پہنچا دیتی ہے اور دارین کی فلاح وسعادت سے نوازتی ہے جیسا کہ ایک بزرگ حضرت شیخ ابوالعباس مرصی کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ایک دن حضرت امیرحمزہ کی تربت کی زیارت کے ارادے سے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے اور ایک شخص بھی ان کے ساتھ ہولیا جو وہ حضرت امیرحمزہ کے مقبرہ پر پہنچے تو خلاف معمول حضرت شیخ ابوالعباس کے لئے خاص طور پر مقبرہ کا دروازہ کھولا گیا وہ اندر داخل ہوئے اور تربت پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ عالم غیب کے کچھ لوگوں کی ایک جماعت کسی بھی طرح کی کمی اور عیب سے پاک اپنے اجسام کے ساتھ موجود ہے حضرت شیخ ان کو دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ یہ ساعت قبولیت ہے یہاں پروردگار سے جو کچھ بھی طلب کیا جائے حاصل ہوگا چنانچہ انہوں نے پروردگار سے دنیا وآخرت میں عفووعافیت کی دعا مانگی اور پھر از راہ ہم دردی اور شفقت اپنے ساتھی سے کہا کہ میرے عزیز اللہ تعالیٰ سے جو کچھ چاہتے ہو مانگ لو، کیونکہ یہ دعاکی قبولیت اور فضل ربی حاصل ہونے کا وقت ہے اس شخص نے بڑی پست ہمتی دکھائی اور ایک دینار کی دعا مانگی (کہ پروردگار مجھے ایک دینار عطا کردے ) نہ تو اس نے آخرت کا کوئی ذکر کیا اور نہ جنت ودوزخ کے بارے میں کچھ عرض مدعا کیا ۔
اس کے بعد وہ دونوں مقبرہ سے نکلے اور واپسی کے لئے مدینہ کی طرف چل پڑے اور مدینہ شہر میں داخل ہوئے تو اہل مدینہ میں سے کسی نے اس شخص کے ہاتھ میں ایک دینار تھما دیا پھر شہر میں پہنچ کروہ دونوں اس زمانے کے مشہور قطب وولی حضرت سید ابوالحسن شاذلی کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت شاذلی پر ان دونوں کا پورا قصہ منکشف ہوگیا انہوں نے بڑے تأسف کے ساتھ اس شخص سے کہا کہ ارے پست ہمت تجھے قبولیت دعا کا وقت نصیب ہوا اور تونے ذلیل دنیا کا ایک حقیر ٹکڑا مانگنے پر اکتفا کیا ؟ آخر تونے ابوالعباس کی طرح عفووعافیت کی دعا کیوں نہیں مانگی یہ تو وہ نعمت ہے جو تجھے حاصل ہوجاتی تو تیری دنیا بھی تیرے قدموں میں آجاتی اور تیری عاقبت بھی سنور جاتی صرف اللہ کی ذات موجود تھی یعنی جس طرح اس کی پاک ذات ابد الاباد تک رہنے والی ہے اسی طرح ازل الازال میں بھی صرف اسی کی ذات تھی کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ سے موجود ہے اور اس سے پہلے کسی بھی چیز کا وجود نہیں تھا ، جس طرح اس کے لئے کوئی انتہا واختتام نہیں ہے اسی طرح اس کے لئے کوئی ابتداء نہیں ہے ، اس کی ذات اور اس کا وجود تغیروحدث سے پاک ومبرا ہے جو اس کے بندوں اور اس کی مخلوق کا خاصہ ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ نہ پہلے کبھی اس کی ذات عدم میں تھی اور نہ آئندہ کبھی وہ عدم میں ہوگا کیونکہ جو ذات ہمیشہ سے اور ہمیشہ کے لئے قائم وباقی ہے اس کا عدم محال ہے ۔
" اللہ تعالیٰ سے پہلے کسی چیز کا وجود نہیں تھا یہ پہلے جملہ کی وضاحت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے علاوہ ہر چیز حادث ہے تو اس واجب الوجود سے پہلے کسی اور چیز کے وجود کا تصور تک نہیں ہوسکتا اور چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق وموجد ہے اس لئے جو بھی چیز وجود میں آئی ہے اسے کے بعد اور اسے کی قدرت تخلیق سے وجود پذیر ہوئی ہے اور اس کا عرش پانی پر تھا الخ ، اس جملہ میں اس طرف اشارہ ہے عرش اور پانی کی تخلیق زمین وآسمان کی تخلیق سے پہلے ہوئی ہے نیز شروع میں عرش کے نیچے پانی کے علاوہ زمین وآسمان کی کوئی بھی چیز نہیں تھی پس عرش کا پانی پر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عرش اور پانی کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں تھی یہ مطلب نہیں ہے کہ عرش پانی کی سطح پر قائم تھا نیز اس پانی سے مراد وہ پانی نہیں ہے جو سمندروں اور دریاؤں میں موجود ہے بلکہ عرش کے نیچے کا وہ پانی قدرت ومشیت الہٰی کا مظہر کوئی اور ہی پانی تھا اس کا تفصیلی ذکر کتاب کی ابتداء میں باب الایمان بالقدر میں گزر چکا ہے ابن ملک نے مذکورہ جملہ کی تشریح میں لکھا ہے عرش پانی پر تھا پانی ہوا کی پشت پر تھا اور ہوا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے قائم تھی ۔ بعض حضرات نے یہ لکھا ہم کہ عرش اور پانی کی تخلیق آسمان اور زمین کی تخلیق سے پہلے ہوئی ہے ، پھر اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کو پانی سے پیدا فرمایا اس طرح کہ پانی اپنی تجلی ڈالی ، تو وہ موجیں مارنے لگا اور اس میں زبردست اتھل پتھل ہوئی جس کے سبب سے اس میں جھاگ پیدا ہوا اور وہ جھاگ جمع ہو کر اس جگہ قائم ہوا جہاں خانہ کعبہ ہے اور اس طرح زمین کا سب سے پہلا ٹکڑا عالم وجود میں آیا ، اور پھر اسی ٹکڑے سے چاروں طرف زمین پھیلائی گئی اور اس کائنات کا تختہ ارض قائم ہوا ، پھر اس تختہ ارض پر پہاڑوں کو پیدا کیا گیا تاکہ زمین ہلنے اور ڈولنے نہ پائے اور پہاڑوں کے دباؤ سے ساکن وجامد رہے اور جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے ، سب سے پہلے جو پہاڑ پیدا کیا گیا وہ جبل ابوقبیس ہے نیز اس پانی میں تموج اور اضطراب سے دھوئیں کی شکل میں جو بخارات اوپر کی طرف بلند ہوئے ان سے آسمان پیدا ہوئے ۔
اور لوح محفوظ میں ہر چیز کو لکھا ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی پیدائش سے پہلے ہر چیز کے متعلق لوح محفوظ میں ہر وہ بات لکھ دی ہے جو اس کو پیش آنے والی ہے اور اسی کے مطابق دنیا میں ظہور ہوتا ہے ۔ رہی یہ بات کہ لوح محفوظ میں اللہ تعالیٰ کے لکھنے سے کیا مراد ہے؟ تو ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے حروف والفاظ پیدا فرمائے ہوں جو اس لوح محفوظ میں مرتسم ہوگئے ہوں یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو لکھنے کا حکم دیا اور انہوں نے اس حکم کے مطابق ہر چیز لوح محفوظ میں لکھ دی !یہ واضح رہے کہ لوح محفوظ میں ہر چیز کا لکھا جانا عرش کی بھی تخلیق سے پہلے ہوگیا تھا ۔ روایت کے آخری الفاظ کے ذریعہ حضرت عمران ابن حصین نے اپنے تاسف کا اظہار کیا کہ وہ اپنی اونٹنی کے چکر میں پڑ کر ایسے موقع پر مجلس نبوی سے اٹھ گئے جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا سلسلہ جاری تھا اور وہ آگے کے ملفوظات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نہ سن سکے صورت حال یہ ہوئی کہ حضرت عمران مجلس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنی اونٹنی دروازے کے باہر باندھ دی تھی ، اس دوران کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یمن کے لوگوں کو اس کائنات کے ابتدائے آفرنیش اور مبدء عالم کے بارے میں بتا رہے تھے، کسی شخص نے آکر حضرت عمران سے کہا کہ تمہاری اونٹنی کھل کر بھاگ گئی ہے جلدی جاؤ اور اس کو پکڑ و اور وہ یہ سنتے ہی مجبورا اٹھ گئے اور اپنی اونٹنی کو پکڑنے کے لئے چلے گئے پھر بعد میں بشیمان ہوئے کہ میں کیوں اٹھ گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک صحبت اور ان حقائق وعلوم سے محروم رہ گیا جو اس وقت بیان فرمائے جارہے تھے ۔

یہ حدیث شیئر کریں