مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر ۔ حدیث 29

قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیوں اور دجال کے ذکر کا بیان

راوی:

اس باب میں بالک آخر زمانہ کی ان نشانیوں اور علامتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو قیامت کے بالکل قریب ظاہر ہوں گی جیسا کہ پچھلے باب میں چھوٹی نشانیوں اور علامتوں کا ذکر کیا تھا ۔
چاہئے تو یہ تھا کہ حضرت امام مہدی کے ظاہر ہونے کا ذکر بھی اسی باب میں ہوتا کیونکہ ان کے وجود کا تعلق حضرت عیسی علیہ السلام اور دجال کے ساتھ جڑا ہوا ہے لیکن چونکہ حضرت مہدی کا ذکر پچھلے ابواب کی ان احادیث میں ہو چکا ہے جن میں ایسے فتنوں اور لڑائیوں کا ذکر تھا جو حضرت امام مہدی کے ظاہر ہونے سے پہلے وقوع پذیر ہونگی اور ان کے ظاہر ہونے کے بعد ختم ہو جائیں گی اس لئے اس باب میں ان کا ذکر نہیں ہوا ۔
قیامت سے پہلے جن دس نشانیوں اور علامتوں کا ذکر کیا جاتا ہے اور جن کو مولف کتاب نے یہاں نقل کیا ہے ان کے ظاہر اور واقع ہونے کی جو ترتیب احادیث وروایات میں منقول ہے اور شارحین نے ان کے درمیان مطابقت اور موافقت پیدا کرنے کے لئے نقل کیا ہے اور کسی حدیث و روایت میں کچھ اور ترتیب منقول ہے اور شارحین نے ان کے درمیان مطابقت اور موافقت پیدا کرنے کے لئے بہت کچھ لکھا ہے جس کا کچھ حصہ احادیث کی تشریح کے ضمن میں مذکور ہوگا تا ہم یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ ان دس نشانیوں اور علامتوں میں سے سب سے بڑی نشانی اور علامت اور سخت ترین بلاء دجال کا ظاہر ہونا ہے جس کے سلسلے میں بہت زیامدہ مشہور تر احادیث منقول ہیں ۔
دجال اور مسیح کے معنی : " دجال " کا لفظ دجل سے نکلا ہے جس کے معنی خلط، مکر اور تلبیس کے ہیں ، چنانچہ جب کوئی شخص صحیح بات کو غلط بات کے ساتھ خلط (گڈمڈ ) کرتا ہے اور فریب دیتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ دجل الحق بالباطل (اس نے حق کو باطل کے ساتھ گڈمڈ کر دیا ) ویسے " دجل " کے معنی کذب یعنی جھوٹ کے بھی آتے ہیں چنانچہ دجال کی ذات میں ان دونوں معنوں کا پایا جانا بالکل ظاہر بات ہے اس کے علاوہ قاموس وغیرہ میں دجال کی اور بھی وجہ تسمیہ مذکور ہیں ۔
" مسیح " ایک ایسا مشترک نام ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام اور دجال دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب یہ لفظ دجال کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اس کو فقط دجال کے ساتھ مقید کر دیتے ہیں یعنی " مسیح دجال " کہتے ہیں اور جب حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اس لفظ کو مطلق استعمال کرتے ہیں یعنی صرف " مسیح " کہتے ہیں ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کو مسیح اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ جس اندھے یا کوڑھی اور یا کسی بھی بیمار پر ہاتھ پھیر دیتے تھے وہ چنگا ہو جاتا تھا یا آپ علیہ السلام کا پاؤں چونکہ عام لوگوں کی طرح نہیں تھا بلکہ ہموار اور بے خم تلوے کا تھا اس لئے آپ علیہ السلام کو مسیح کہا جاتا ہے یا یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام ماں کے پیٹ سے بالکل ممسوح پونچھے پانچھے پیدا ہوئے تھے، پیدائش کے وقت بچے جس آلائش کے ساتھ ماں کے پیٹ سے باہر آتے ہیں وہ ان کے ساتھ نہیں تھی ، بالکل ساف ستھرے ماں کے پیٹ سے باہر آئے تھے ۔ اس اعتبار سے ان کو مسیح کہا جانے لگا بعض حضرات کے نزدیک " مسیح " کے معنی " صدیق " کے ہیں اس اعتبار سے آپ علیہ السلام کو مسیح کہا جانا بالکل ظاہر بات ہے ! ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ آپ علیہ السلام زمین کے فاصلے بہت طے کرتے تھے لہٰذا مساحت کی مناسبت سے آپ کو مسیح کہا جانے لگا ، دجال کو بھی مسیح کہنے کی ایک وجہ یہی ہے کہ وہ تقریبا ساری زمین کی سیر کرے گا اور تمام دنیا میں گھومتا پھرے گا ، نیز اس ملعون کو مسیح کہنے کی کچھ اور وجوہ بھی ہیں ایک تو یہ کہ اس کی آنکھ غائب ہوگی اور ایک طرف کا چہرہ ممسوح ہوگا ، دوسرے یہ کہ وہ ایک ایسی ذات ہوگی جس سے خیروبھلائی کو الگ اور دور کر دیا گیا ہوگا جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ذات سے بدی اور برائی کو الگ اور دور کر دیا گیا ہے پس حضرت عیسی علیہ السلام تو مسیح اللہ ہیں اور دجال ملعون مسیح الضلالت ہے بعض حضرات نے کہا کہ دجال کے لئے مسیح کا لفظ ہے جس کے معنی بد شکل اور بد صورت کے ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے مسیح کا لفظ ہے تا ہم بعض لوگوں نے جو یہ کہا ہے کہ دجال کے لئے " مسخ" کا لفظ ہے تو یہ بات غلط ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں