مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر ۔ حدیث 30

قیامت آنے کی دس بڑی نشانیاں

راوی:

عن حذيفة بن أسيد الغفاري قال اطلع النبي صلى الله عليه وسلم علينا ونحن نتذاكر . فقال ما تذكرون ؟ . قالوا نذكر الساعة . قال إنها لن تقوم حتى تروا قبلها عشر آيات فذكر الدخان والدجال والدابة وطلوع الشمس من مغربها ونزول عيسى بن مريم ويأجوج ومأجوج وثلاثة خسوف خسف بالمشرق وخسف بالمغرب وخسف بجزيرة العرب وآخر ذلك نار تخرج من اليمن تطرد الناس إلى محشرهم . وفي رواية نار تخرج من قعر عدن تسوق الناس إلى المحشر . وفي رواية في العاشرة وريح تلقي الناس في البحر . رواه مسلم .

حضرت حذیفہ ابن اسید غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ آپس میں قیامت کا ذکر کر رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف آنکلے اور پوچھا کہ تم لوگ کس چیز کا ذکر کر رہے ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم قیامت کا تذکرہ کر ہے ہیں تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " یقینا قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک تم اس سے پہلے دس نشانیوں کو نہ دیکھ لوگے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دس نشانیوں کو اس ترتیب سے ذکر فرمایا ١ دھواں ٢ دجال ٣ دابہ الارض ٤ سورج کا مغرب کی طرف سے نکلنا ٥ حضرت عیسی ابن مریم کانازل ہونا ٦ یاجوج ماجوج کا ظاہر ہونا اور (چھٹی، ساتویں اور آٹھویں نشانی کے طور پر ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین خسوف کا (یعنی تنی مقامات پر زمین کے دھنس جانے کا ) ذکر فرمایا ایک تو مشرق کے علاقہ میں ، دوسرے مغرب کے علاقہ میں اور تیسرے جزیرہ عرب کے علاقہ اور دسویں نشانی ، جو سب کے بعد ظاہر ہوگی ، وہ آگ ہے جو یمن کی طرف سے نمودار ہوگی اور لوگوں کو گھیر ہانک کر زمین حشر کی طرف لے جائے گی اور ایک حدیث میں یوں ہے کہ وہ ایک ایسی آگ ہوگی جو ( یمن کے مشہور شہر عدن کے آخری کنارے سے نمودار ہوگی اور لوگوں کو ہانک کر زمین حشر کی طرف لے جائے گی نیز ایک روایت میں دسویں نشانی کے طور پریمن کی طرف سے یا عدن کے آخری کنارے سے آگ کے نمودار ہونے کے بجائے ) ایک ایسی ہوا کا ذکر کیا گیا ہے جو لوگوں کو سمندر میں پھینک دے گی ۔ " (مسلم )

تشریح
حدیث میں قیامت کی جن دس بڑی نشانیوں اور علامتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں پہلی نشانی کے طور پر دھویں کا ذکر ہے ، چنانچہ وہ ایک بڑا دھواں ہوگا جو ظاہر ہو کر مشرق سے مغرب تک تمام زمین پر چھاجائیگا اور مسلسل چالیس روز تک چھایا رہے گا اس کی وجہ سے تمام لوگ سخت پریشان ہو جائیں گے ، مسلمان تو صرف دماغ وحو اس کی کدورت اور زکام میں مبتلا ہوں گے مگر منافقین وکفار بیہوش ہو جائیں گے اور ان کے ہوش وحو اس اس طرح مختل ہو جائیں گے کہ بعضوں کو کئی دن تک ہوش نہیں آئے گا واضح رہے کہ قرآن کریم میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ آیت (فَارْتَ قِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَا ءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ ) 44۔ الدخان : 10) تو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے تابعین کے قول کے مطابق اس آیت میں اسی دھویں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن حضرت ابن مسعود اور ان کے تابعین کے نزدیک اس آیت میں دھویں سے مراد غلہ کا وہ قحط ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قریش مکہ پر نازل ہوا تھا اور جس کا حقیقی سبب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بدعا تھی کہ اے اللہ ! تو ان لوگوں پر (جو سرکشی اور اسلام دشمنی میں حد سے بڑھ گئے ہیں سات سال کا قحط نازل فرما جیسا کہ تو نے حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں مصریوں پر نازل فرمایا تھا ، چنانچہ اس بددعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو سخت ترین غذائی قحط میں مبتلا کیا یہاں تک کہ وہ چمڑے ، ومردے اور دوسری الا بلا چیزیں کھانے لگے تھے اس عرصہ میں انہیں فضا میں دھویں کی مانند ایک چیز نظر آتی تھی جس کو وہ اپنے اوپر منڈلاتے ہوئے دیکھا کرتے تھے جیسا کہ کوئی بھوکا ضعف وکمزوری کی شدت کے سبب اپنی آنکھوں کے آگے تاریکی محسوس کرتا ہے اور فضا میں بھری ہوئی ہوا اس کو دھویں کی شکل میں دکھائی دیتی ہے ، ویسے بھی جب کسی علاقہ میں قحط سالی پھیل جاتی ہے تو بارش نہ ہونے کی وجہ سے پورے ماحول میں خشکی اور گردوغبار کی جو کثرت ہو جاتی ہے وہ فضا کو اس طرح مکدر کردیتی ہے کہ چاروں طرف دھویں کی صورت میں اندھیرا معلوم ہونے لگتا ہے ۔
" دابۃ الارض " سے مراد ایک عجیب الخلقت اور نادر شکل کا جانور ہے جو مسجد حرام میں کوہ صفا ومروہ کے درمیان سے برآمد ہوگا اور جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ان الفاظ واخر جنا لہم دابۃ من الارض کے ذریعہ کیا گیا ہے ! علماء نے لکھا ہے کہ وہ جانور چوپایہ کی صورت میں ہوگا جس کی درازی ساٹھ گز کی ہوگی، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس عجیب الخلقت جانور کی شکل یہ ہوگی کہ چہرہ انسانوں کی طرح پاؤں اونٹ کی طرح گردن گھوڑے کی طرح سرین ہرن کی طرح سینگ بارہ سنگے کی طرح اور ہاتھ بندر کی طرح ہوں گے !نیز اس کے نمودار ہونے کی صورت یہ ہوگی کہ کوہ صفا جو کعبہ کی مشرقی جانب واقع ہے ، یکایک زلزلہ سے پھٹ جائے گا اور اس میں سے یہ جانور نکلے گا ، اس کے ہاتھ میں حضرت موسی علیہ السلام کا عصا ہوگا اور دوسرے ہاتھ میں حضرت سلیمان کی انگشتری ہوگی تمام شہروں اور علاقوں میں اتنی تیزی کے ساتھ دورہ کرے گا کہ کوئی فرد بشر اس کا پیچھا نہ کر سکے گا اور دوڑ میں اس کا مقابلہ کر کے اس سے چھٹکارا نہ پا سکے گا جہاں جہاں جائے گا ہر شخص پر نشان لگاتا جائے گا جو صاحب ایمان ہوگا اس کو حضرت موسی علیہ السلام کے عصاء سے چھوئے گا اور اس کی پیشانی پر " مومن " لکھ دے گا اور جو کافر ہوگا اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگشتری سے سیاہ مہر لگا دے گا اور اس کے منہ پر کافر لکھ دے گا! بعض حضرات نے کہا ہے کہ دابۃ الارض تین مرتبہ نکلے گا ایک دفعہ تو حضرت امام مہدی کے زمانہ میں پھر حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں اور پھر آخری دفعہ آفتاب کے مغرب کی جانب سے طلوع ہونے کے بعد ۔
آفتاب کے مغرب کی طرف سے نکلنے کے سلسلے میں وضاحت آگے آنے والی ایک حدیث کی تشریح میں بیان ہوگی ! آسمان سے حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول حضرت امام مہدی کے ظہور کے بعد ہوگا ، چنانچہ آپ ایک دن شام کے وقت آسمان سے دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی سفید منارہ پر اتریں گے اور پھر دجال کو تلاش کرکے اس کو دروازہ لد پر قتل کریں گے " لد " شام میں ایک موضع کا نام ہے اور بعض حضرات نے اس کو فلسطین کے ایک موضع کا نام بتایا ہے واضح رہے کہ یہاں حدیث میں جن دس نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کی ترتیب کے بارے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ان میں سے سب سے پہلے جس نشانی کا ظہور ہوگا وہ دھواں ہے ، اس کے بعد دجال نکلے گا پھر حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے ، پھر یاجوج ماجوج نکلیں گے ، پھر دابۃ الارض نکلے گا ، اور پھر آفتاب مغرب کی جانب سے طلوع ہوگا یہ بات اس لئے کہی جاتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں تمام روئے زمین پر اہل ایمان کے علاوہ کوئی نہیں ہوگا کیونکہ سارے کفار مسلمان ہونگے ان کا ایمان مقبول ہوگا ، اس کے برخلاف اگر یہ کہا جائے کہ مغرب کی جانب سے آفتاب کا طلوع ہونا ، دجال کے نکلنے اور حضرت عیسی علیہ السلام کے نازل ہونے سے پہلے ہوگا تو ظاہر ہے کہ جو کفار حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں مسلمان ہوں گے ان کا ایمان مقبول قرار نہ پائے کیونکہ آفتاب مغرب کی جانب سے طلوع ہونے کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا اور اس وقت کسی کافر کا ایمان قبول کرنا معتبر نہیں ہوگا جب کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں ایمان قبول کرنے والے تمام لوگوں کا ایمان معتبر ہوگا اور وہ مسلمان مانے جائیں گے ! پس حدیث میں مذکورہ نشانیوں کو جس ترتیب کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے وہ ان نشانیوں کے وقوع پذیر ہونے کی اصل ترتیب نہیں ہے اور نہ یہاں اصل ترتیب کا ذکر کرنا مراد ہے بلکہ اصل مقصد ان نشانیوں کو ایک جگہ ذکر کرنا ہے سو بلا لحاظ ترتیب ان کو ایک جگہ ذکر کر دیا گیا لہٰذا یہ اشکال وار نہیں ہو سکتا کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول آفتاب کے مغرب کی جانب سے طلوع ہونے کے واقعہ سے پہلے ہوگا تو یہاں نزول آفتاب کے بعد کیوں ذکر کیا گیا ۔
" یاجوج ماجوج " دراصل دو قبیلوں کے نام ہیں جو یافث ابن نوح کی اولاد میں سے ہیں ، یہ دونوں قبیلے بہت وحشی مگر طاقتور تھے ان کا خاص مشغلہ لوٹ مار اور زمین پر فساد پھیلانا تھا ، یہ قبیلے جس گھاٹی میں رہا کرتے تھے اس کو ذو القرنین نے ایک ایسی دیوار سے جس کی بلندی اس گھاٹی کے دونوں طرف کے پہاڑوں کی چوٹی تک پہنچتی ہے اور موٹائی ٦٠ گز کی ہے ، بند کرا دیا تھا تاکہ لوگ ان قبیلوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہ سکیں ، جب قیامت آنے کو ہوگی اور یاجوج ماجوج کے نکلنے کا وقت آئے گا تو دیوار ٹوٹ جائے گی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین خسوف کا ذکر فرمایا " کے بارے میں ابن مالک نے کہا ہے کہ عذاب الہٰی کے طور پر زمین کا دھنس جانا مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں واقع ہو چکا ہے لیکن احتمال ہے کہ یہاں حدیث میں جن تین خسوف کا ذکر فرمایا ہے وہ پہلے واقع ہو چکنے والے خسوف کے علاوہ ہوں گے اور ان سے بھی زیادہ سخت ہوں گے ۔
" اور لوگوں کو ہانک کر زمین حشر کی طرف لے جائے گی " میں زمین حشر سے مراد ملک شام کا وہ علاقہ ہے جہاں وہ آگ لوگوں کو لے جا کر چھوڑے گی بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس آگ کی ابتداء ملک شام سے ہوگی، یا یہ کہ ملک شام کو اس قدر وسیع وفراخ کر دیا جائے گا کہ پورے عالم کے لوگ اس میں جمع ہو جائیں گے بہر حال حدیث کے اس جملہ کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ اس آگ کا لوگوں کو ہانکنا، حشر کے بعد ہوگا ۔ اگر زمین حشر سے مراد میدان حشر لیا جاتا تو یقینا یہ مفہوم پیدا ہوتا اور اس پر اعتراض بھی واقع ہوتا ، لیکن جب یہاں ' ' میدان حشر " مراد ہی نہیں ہے تو پھر کوئی اعتراض بھی پیدا نہیں ہو سکتا !نیز ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ وہ آگ حجاز کی سر زمین سے نمودار ہوگی ، جب کہ یہاں حدیث میں اس کا یمن کی جانب سے نمودار ہونا بیان کیا گیا ہے ) لہذا قاضی عیاض نے یہ کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ قیامت کی نشانی کے طور پر جس آگ کا ذکر کیا گیا ہے وہ ایک نہیں دو ہوں گی، اور وہ دونوں ، لوگوں کو گھیر کر ہانک کر زمین حشر (یعنی ملک شام ) کی طرف لے جائیں گی ۔ یا یہ کہ وہ آگ تو ایک ہی ہوگی جو ابتداء میں یمن کی جانب سے نکلے گی لیکن اس کا ظہور حجاز کی سر زمین سے ہوگا ۔ اس موقع پر اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس سلسلہ میں بخاری کی جو روایت ہے اس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ قیامت کی علامتوں میں سے سب سے پہلی علامت وہ آگ ہوگی جو لوگوں کو مشرق کی طرف سے گھیر ہانک کر مغرب کی طرف لے جائے گی جب کہ حقیقت میں وہ آگ سب سے آخری علامت ہوگی جیسا کہ یہاں حدیث میں مذکور ترتیب سے بھی واضح ہوتا ہے ، پس اس تضاد کو اس تاویل کے ذریعہ دور کیا جائے گا کہ آگ کی سب سے آخری نشانی مذکورہ آگ ہوگی ، اور بخاری کی روایت میں آگ کو جو سب سے پہلی نشانی قرار دیا گیا ہے تو وہ اس اعتبار سے کہ آگ ، قیامت کی ان نشانیوں میں سے سب سے پہلی نشانی ہوگی جن کے بعد دنیا کی چیزوں میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہے گی بلکہ ان نشانیوں کے وقوع پذیر ہونے کے ساتھ ہی صور پھونکا جایئگا، ان کے برخلاف یہاں حدیث میں جن نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے ، ان میں سے ہر ایک نشانی کے بعد بھی دنیا کی چیزیں باقی رہیں گی ۔
ایک ایسی ہوا کا ذکر کیا گیا ہے جو لوگوں کو سمندر میں پھینک دے گی یہ روایت بظاہر اس روایت کے خلاف ہے جس میں آگ کا ذکر ہے پس ان دونوں روایتوں کے درمیان مطابقت ویکسانیت پیدا کرنے کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ اس دوسری روایت میں لفظ ناس (لوگوں ) سے مراد کفار ہیں، اور ان کو ہانکنے والی آگ ہوا کے سخت جھکڑ کے ساتھ ملی ہوئی ہوگی تاکہ ان کفار کو سمندر میں دھکیلنے کا عمل زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ پورا ہو ، نیز مذکورہ آگ جس کا پانی آگ کی صورت میں تبدیل ہو جائے گا ، چنانچہ قرآن کریم ان الفاظ و اذا لبحار سجرت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ تبدیل ہو جائے گا چنانچہ قرآن کریم کے ان الفاظ میں اسی حقیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کے برخلاف مومنین کے لئے جو آگ ہوگی وہ محض ان کو ڈرانے کے لئے ہوگی اور کوڑے کی طرح اس کا کام یہ ہوگا کہ انہیں ہانک کر زمین حشر اور موقف اعظم کی طرف لے جائے ۔

یہ حدیث شیئر کریں