مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء مبارک اور صفات کا بیان ۔ حدیث 359

اسماء نبوی صلی اللہ علیہ وسلم :

راوی:

عن جبير بن مطعم قال : سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول : " إن لي أسماء : أنا محمد وأنا أحمد وأنا الماحي الذي يمحو الله بي الكفر وأنا الحاشر الذي يحشر الناس على قدمي وأنا العاقب " . والعاقب : الذي ليس بعده شيء . متفق عليهوعن أبي موسى الأشعري قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يسمي لنا نفسه أسماء فقال : " أنا محمد وأحمد والمقفي والحاشر ونبي التوبة ونبي الرحمة " . رواه مسلم

حضرت جبیربن معطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا میرے متعدد نام ہیں جن میں سے میرا مشہور نام ایک تو" محمد " ہے اور دوسرا " احمد " ہے میرا نام " ماحی " بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ کفر کو مٹاتا ہے، میرا نام " حاشر" بھی ہے ، کہ لوگوں کو میرے نقش قدم پر اٹھایا جائے گا اور میرا نام " عاقب" بھی ہے یعنی وہ شخص جس کے بعد کوئی نبی نہیں ( بخاری ومسلم )

تشریح :
بعض روایتوں میں " محمد" اور " احمد " کے ساتھ ایک نام " محمود " بھی منقول ہے ، ان تینوں کا مادہ اشتقاق ایک ہی ہے یعنی " حمد" " محمود " کا مطلب ہے وہ ہستی جس کی ذات وصفات کی تعریف دنیا میں بھی کی گئی اور آخرت میں بھی ۔ محمد کا مطلب وہ ہستی جس کی بے انتہاتعریف کی گئی ۔ احمد ' کا مطلب ہے وہ ہستی جس کی تعریف اگلے پچھلوں اور سابقہ آسمانی کتابوں میں سب سے زیادہ کی گئی ۔" احمد" کے ایک معنی یہ بھی بیان ہوئے ہیں کہ وہ ہستی جو صاحب لوائے حمد ہو اور جو اپنے مولیٰ کی حمد وثنااتنی زیادہ اور اتنے اچھوتے انداز میں کرے کہ کسی کے علم وگمان کی رسائی اس تک نہ ہو جیسا کہ قیامت کے دن مقام محمود میں ہوگا ۔
" ماحی " کے معنی ہیں مٹانے والا ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں اور رسولوں کی دعوت وتبلیغ کی بہ نسبت سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی دعوت وتبلیغ کے ذریعہ کفر کو مٹایا ۔
" عاقب " کے معنی ہیں سب سے پیچھے آنے والا ۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے وہ نبی اور رسول ہیں جو تمام رسولوں اور نبیوں کے بعد اس دنیا میں تشریف لائے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی اور نبی ورسول اس دنیا میں مبعوث نہیں ہوگا۔
اور حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے اپنی ذات مبارک کے متعدد نام بیان فرمایا کرتے تھے ، چنانچہ (ایک دن ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں " احمد " ہوں میں " محمد" ہوں ، میں " مقفی " (تمام پیغمبروں کے پیچھے آنے والا ہوں ، میں حاشر (یعنی قیامت کے دن تمام لوگوں کو جمع کرنے والا ہوں میں توبہ کا نبی ہوں اور میں رحمت کا نبی ہوں ۔ (مسلم )

تشریح :
توبہ کا نبی " یا تو اس اعتبار سے فرمایا کہ خلقت نے آپ کے ہاتھ پر توبہ کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پچھلی زندگی کے اعمال خواہ وہ کفروشرک ہویا گناہ ومعصیت سے بیزاری کا پختہ عہد کرکے دین اسلام کی کامل تابعداری کا اقرار کیا ۔ یا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ توبہ واستغفار بہت کرتے تھے ، اور رجوع الی اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا بنیادی نقطہ ومحور تھا نیز یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات کا فیض تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ اگر پختہ عہد یقین کے ساتھ زبان سے توبہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان کی زبانی توبہ کو قبول فرمالیتا ہے جب کہ پچھلی امتوں کے لوگ اس وقت قابل معافی قرار نہیں پاتے تھے جب تک ان کے قصور اور جرم کی سزا قتل یا دوسری صورتوں میں ان کو نہ مل جاتی تھی ، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام " نبی التوبہ " بھی ہوا
" نبی الرحمۃ " یعنی رحمت کا نبی ۔ یہ قرآن کریم سے ماخوذ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین ۔
ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجاہے ۔"

یہ حدیث شیئر کریں