مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر ۔ حدیث 36

فتنہ دجال سے بڑا کوئی فتنہ نہیں

راوی:

وعن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله لا يخفى عليكم إن الله تعالى ليس بأعور وإن المسيح الدجال أعور عين اليمنى كأن عينه عنبة طافية . متفق عليه . ( متفق عليه )

" اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " یقینًا اللہ تعالیٰ تم پر مخفی نہیں ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے جب کہ مسیح دجال داہنی آنکھ سے کانا ہوگا ۔ اور اس کی وہ آنکھ ایسی ہوگی جیسے وہ انگور کا ایک پھولا ہوا دانا ہے ۔ " (بخاری ومسلم )

تشریح
اللہ تعالیٰ تم پر مخفی نہیں ہے یہ جملہ دراصل آگے کی عبارت " اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے الخ " کی تمہید کے طور پر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کی بتائی ہوئی باتوں کی روشنی میں تم اللہ تعالیٰ کی حقیقت سے آگاہ ہو اور اس کی ذات کو تم نے اس کی صفات کاملہ کے ساتھ پہچان رکھا ہے ، لہٰذا جب دجال کا ظہور ہو اور وہ اپنی شعبدہ بازیوں اور فریب کاریوں کے ذریعہ تمہیں تمہارے رب کے بارے میں گمراہ کرنا چاہے تو تم گمراہ نہ ہونا ۔
اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے " کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں کسی نقصان وعیب کی نفی کرنا مراد ہے نہ کہ اس کی ذات کے لئے کوئی جسمانی عضو کو صحیح وسالم ثابت کرنا مراد ہے گویا اصل مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کی جنس سے نہیں ہے اور نہ اس کی آدمیوں جیسی آنکھ ہے چہ جائیکہ وہ کانا ہو ۔
لفظ طافیۃ یہاں توی کے ساتھ منقول ہے ویسے بعض روایتوں میں یہ لفظ ہمزہ کے ساتھ بھی نقل کیا گیا ہے، اس کے لغوی معنی " بلند کے ہیں لہٰذا عنبۃ طافیۃ کا مفہوم ہے انگور کا پھولا ہوا دانا واضح رہے کہ دجال کی آنکھ کے سلسلہ میں یہ روایت اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ انہا لیت بناتئۃ ولا حجراء یعنی اس کی وہ آنکھ نہ ابھری ہوئی ہوگی اور نہ دھنسی ہوئی اور دونوں روایتوں کے درمیان منافات اس اعتبار سے نہیں ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں باتیں اس کی آنکھوں میں پائی جائیں، یعنی اس کی ایک آنکھ تو اس طرح کی کافی ہوگی جیسے انگور کا پھولا دنا اور دوسری آنکھ اس طرح کی ہوگی کہ نہ تو وہ ابھری ہوئی ہوگی اور نہ دھنسی ہوئی تورپشتی نے کہا ہے کہ وہ دجال کی جسمانی حالت خصوصا آنکھ کے بارے میں جو احادیث منقول ہیں ان سب میں بہت زیادہ باہمی تضاد وتعارض ہے اور بسا اوقات ان کے درمیان مطابقت پیدا کرنا مشکل ہو جاتا ہے مثلًا یہاں جو حدیث نقل ہوئی ہے اس میں تو یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اس کی آنکھ طافیہ (بلند) ہوگی جیسا کہ انگور کا کوئی پھولا ہوا دانا ہوتا ہے، ایک حدیث میں یہ ہے کہ وہ جاحظ العین یعنی ابھری ہوئی آنکھ والا ہوگا اور ابھری ہوئی آنکھ نہ تو ابھری ہوئی ہوگی اور نہ دھنسی ہوئی ہوگی پس ان تمام روایات میں مطابقت کے لئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس کی آنکھ کی جو مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں ان کا تعلق دونوں آنکھوں کے ایک دوسرے سے مختلف ہونا ہے یعنی ایک آنکھ اس طرح کی ہوگی اور ایک اس طرح کی اس کی تائید عبداللہ کی مذکورہ بالا روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں دجال کا دائیں آنکھ سے کانا ہونا نقل کیا گیا ہے اس سلسلہ میں جو روایت حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے اس میں یہ ہے کہ وہ ممسوح العین (یعنی مٹی ہوائی آنکھ والا ہوگا ) اور اس کی آنکھ پر موٹا ناخنہ ہوگا، نیز ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ وہ بائیں آنکھ سے کانا ہوگا ان روایتوں کے درمیان مطابقت کرنے کے لئے بھی یہی کہا جائے گا کہ اس کی آنکھ کے عیب دار ہونے کی جو مختلف نوعیتیں بیان کی گئیں ہیں وہ الگ الگ دونوں آنکھوں کے اعتبار سے ہیں یعنی اس کی ایک آنکھ تو بالکل غائب ہوگی اور دوسری بھی عیب دار ہوگی ۔ اس طرح اس کی دونوں آنکھوں پر " عور" کا اطلاق ہو سکتا ہے کیونکہ عور کے اصل معنی عیب کے ہیں لہٰذا اس کی دائیں آنکھ بھی عیب دار ہوگی اور بائیں آنکھ بھی ۔

یہ حدیث شیئر کریں