مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء مبارک اور صفات کا بیان ۔ حدیث 360

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور کافروں کی گالیاں ،

راوی:

وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ألا تعجبون كيف يصرف الله عني شتم قريش ولعنهم ؟ يشتمون مذمما ويلعنون مذمما وأنا محمد " . رواه البخاري

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن صحابہ کرام سے ) فرمایا کہ تمہیں اس پر حیرت نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو قریش مکہ کی گالیوں اور لعنتوں سے کس طرح محفوظ رکھا ہے ؟ وہ مذمم کو گالیاں دیتے ہیں اور مذمم پر لعنت کرتے ہیں جب کہ میں " محمد " ہوں ۔" (بخاری)

تشریح :
" مذمم " معنی کے اعتبار سے " محمد " کی ضد ہے یعنی وہ شخص جس کی مذمت وبرائی کی گئی ہویہ لفظ قریش مکہ کے بغض وعناد کا مظہر تھا ، وہ بدبخت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو " محمد " کہنے کے بجائے مذمم کہا کرتے تھے اور یہی نام لے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بد زبانی کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر لعن وطعن کیا کرتے تھے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تسلی دینے کے لئے فرمایا کرتے تھے کہ قریش مکہ جو بدزبانی کرتے ہیں اور سب وشتم کے تیر پھینکتے ہیں ، ان سے آزردہ خاطر ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، وہ بدبخت تو مذمم کو اپنا نشانہ بناتے ہیں اور مذمم پر لعن طعن کرتے ، اور میں مذمم نہیں ہوں بلکہ محمد ہوں ، یہ تو اللہ کا فضل ہے کہ اس نے میرے نام کو جو میری ذات کا مظہر ہے ، ان حاسدوں کی گالیوں اور لعن طعن کانشانہ بننے سے بچا رکھا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں