مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء مبارک اور صفات کا بیان ۔ حدیث 364

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدوقامت وغیرہ کا ذکر :

راوی:

وعن أنس قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم ليس بالطويل البائن ولا بالقصير وليس بالأبيض الأمهق ولا بالآدم وليس بالجعد القطط ولا بالسبط بعثه الله على رأس أربعين سنة فأقام بمكة عشر سنين وبالمدينة عشر سنين وتوفاه الله على رأس ستين سنة وليس في رأسه ولحيته عشرون شعرة بيضاء
وفي رواية يصف النبي صلى الله عليه و سلم قال : كان ربعة من القوم ليس بالطويل ولا بالقصير أزهر اللون . وقال : كان شعر رسول الله صلى الله عليه و سلم إلى أنصاف أذنيه
وفي رواية : بين أذنيه وعاتقه . متفق عليه
وفي رواية للبخاري قال : كان ضخم الرأس والقدمين لم أر بعده ولا قبله مثله وكان سبط الكفين . وفي أخرى له قال : كان شئن القدمين والكفين

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قد نہ تو بہت لمبا تھا اور نہ ٹھگنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ نہ بالکل سفید تھا اور نہ بالکل گندمی یعنی مائل بہ سیاہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال نہ بالکل خمدار تھے اور نہ بالکل سیدھے تھے ، اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت مبعوث فرمایا (یعنی منصب رسالت پر فائز کیا ) جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پورے چالیس سال کی ہوگئی تھی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مکہ میں قیام فرمایا (دس سال مدینہ میں ، اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساٹھ سال کی عمر میں وفات دی ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک اور داڑھی میں صرف بیس بال سفید تھے ۔" ایک اور روایت میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بیان کرتے ہوئے یہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں میانہ قد تھے نہ لانبے تھے نہ ٹھگنے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ نہایت صاف اور چمکدار تھا ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال آدھے کانوں تک تھے ۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرکے بال ) کانوں اور شانوں کے درمیان تک لمبے تھے ( بخاری ومسلم) ایک اور روایت میں ، جس کو بخاری نے نقل کیا ہے اس طرح ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک بڑا تھا اور پاؤں مبارک پرُگوشت تھے ، میں نے آپ جیسا (وجیہہ وشکیل انسان ) نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دیکھا تھا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیاں فراخ تھیں ۔ بخاری ہی کی روایت میں ہے کہ حضرت انس نے بیان کیا ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں بازو اور ہتھیلیاں گدازا ور پرگوشت تھیں ۔

تشریح :
قد نہ تو بہت لمبا تھا نہ ٹھگنا ۔" کا مطلب یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد میانہ مائل بہ درازی تھا جس کو ہمارے محاورے میں نکلتا قد کہتے ہیں ۔ بعض روایتوں میں جو یہ آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی مجمع میں کھڑے ہوتے تو سب سے بلند دکھائی دیتے تھے ، اگرچہ اس مجمع میں دراز قد لوگ بھی ہوتے تھے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد بہت زیادہ دراز تھا بلکہ اس کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعجازی حیثیت کو بیان کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو جو عظمت ورفعت عطا فرمائی تھی وہ ہرموقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قد وقامت سے بھی ظاہر ہوتی تھی یہاں تک کہ اگر آپ دراز قد لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوتے تو اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے وجود کو سب سے زیادہ نمایاں رکھتا تھا۔
" آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ نہ بالکل سفید تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ ۔" کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رنگت نہ تو چونے کی طرح بالکل سفید تھی جس میں سرخی کی جھلک بھی نہیں ہوتی اور نہ بہت گہری گندمی تھی بلکہ ایسی گندم گوں تھی جس کو سرخ سفید رنگ کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے بال نہ تو اتنے زیادہ گھونگھرلے تھے جیسے افریقی اور حبشی لوگوں کے ہوتے ہیں اور نہ بالکل سیدھے تھے بلکہ ان دونوں کے بیچ بیچ تھے ۔
مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کی مدت دس سال تو بالاتفاق ثابت ہے اور اس میں کوئی اختلافی روایت نہیں ہے لیکن منصب رسالت پر فائز ہونے کے بعد مکہ میں قیام کی مدت کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں ۔ تحقیقی طور پر جوقول صحیح مانا گیا ہے وہ تیرہ سال کی مدت کا ہے اس اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ سال ہوتی ہے پس اس روایت میں جو ساٹھ سال کہا گیا ہے تو اس کی توجیہہ یہ ہے کہ راوی نے اس روایت میں کسور کے ذکر کو اہمیت نہ دیتے ہوئے تیرہ سال کو دس سال کہا اور تریسٹھ سال کو ساٹھ سال کہا ، کیونکہ اس زمانہ میں عام طور پر یہ رواج تھا کہ اعداد وشمار کو بیان کرتے وقت کسور کو ذکر کرنا زیادہ ضروری نہیں سمجھتے تھے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سرکے بالوں کی لمبائی کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں ، دو روایتیں تو یہاں نقل ہوئیں ، ایک روایت میں دونوں کانوں کی لوتک " کے الفاظ ہیں اور ایک روایت میں " کاندھوں کے قریب تک " کا ذکر ہے ۔ روایتوں کے اس اختلاف کا سبب دراصل یہ ہے کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالوں کو تیل اور کنگھی سے آراستہ کئے ہوئے ہوتے اس وقت بال لمبے معلوم ہوتے اور جب بالوں میں تیل نہ ہوتا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کئے ہوئے ہوتے تو اس وقت بال چھوٹے معلوم ہوتے ، اس طرح جیسا کہ مجمع البحار میں لکھا ہے جب بالوں کی اصلاح کرائے ہوئے زیادہ دن گذرجاتے تھے تو قدرتی طور پر بال لمبے ہوجاتے تھے اور جب اصلاح کرالیتے تھے تو بالوں کی لمبائی کم ہوجاتی تھی ، جس شخص نے اس میں سے جس حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کو دیکھا اس کے مطابق ان کی لمبائی کو ذکر کیا ۔ مجمع البحار کی اس روایت سے یہ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وقتا فوقتا اپنے بالوں کو موزوں مقدار میں کٹواتے رہتے تھے ، جہاں تک بالوں کو منڈوانے اور سربالکل صاف کرانے کا تعلق ہے تو اس کا ثبوت کسی روایت سے نہیں ملتا ۔ہاں صرف حج اور عمرے کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر منڈوانا ضرورثابت ہے ۔
سر مبارک بڑا اور پاؤں پرُگوشت تھے " پیروں کاموٹا یعنی پرُگوشت ہونا شجاعت اور ثابت قدمی کی علامت ہے جب کہ سرکا بڑا ہونا سرداری عظمت اور عقلمندی کی نشانی سمجھا جاتا تھا اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ہتھیلیاں بھی بہت گداز اور پرُگوشت تھیں اور یہ چیز بھی قوت وشجاعت کی علامت مانی جاتی ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں