مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ آنحضرت کے اخلاق وعادات کا بیان ۔ حدیث 386

بے مثال تحمل اور خوش اخلاقی :

راوی:

وعنه قال : كنت أمشي مع رسول الله صلى الله عليه و سلم وعليه برد نجراني غليظ الحاشية فأدركه أعرابي فجبذه جبذة شديدة ورجع نبي الله صلى الله عليه و سلم في نحر الأعرابي حتى نظرت إلى صفحة عاتق رسول الله صلى الله عليه و سلم قد أثرت به حاشية البرد من شدة جبذته ثم قال : يا محمد مر لي من مال الله الذي عندك فالتفت إليه رسول الله صلى الله عليه و سلم ثم ضحك ثم أمر له بعطاء . متفق عليه

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن ) میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر (یمن کے شہر) نجران کی بنی ہوئی (دھاری دار ) چادر تھی ، جس کے کنارے بہت دبیز اور موٹے تھے ، (اچانک راستہ میں ) ایک دیہاتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مل گیا اور اس نے (اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر پکڑ کر اتنے زور سے کھینچا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سینے کی قریب آلگے ، میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو اس دیہاتی کے اس قدر سختی سے چادر کھینچنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک پر چادر کے کنارے کی رگڑ کا نشان پڑ گیا ، پھر اس دیہاتی نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے پاس اللہ کا جو مال ہے اس میں سے کچھ مجھ کودلواؤ ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تو (حیرت کے ساتھ ) اس کی طرف دیکھا پھر (ازراہ تلطف ) مسکرائے اور اس کو کجھ دیئے جانے کا حکم صادر فرمایا ۔ (بخاری ومسلم )

تشریح :
ایک دوسری روایت میں ہے کہ مال اللہ الذی عندک کے بعد اس دیہاتی نے یہ بھی کہا : لامن مالک ولامن مال ابیک (نہ تو تمہارے ذاتی مال میں سے مانگ رہا ہوں اور نہ تمہارے باپ کے مال میں سے ) اور اللہ کے مال سے زکوۃ کا مال مراد ہے !
یہ حدیث لوگوں کی سخت گوئی بے مروتی اور بداخلاقی پر انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال ضبط وتحمل کی دلیل ہے اور اس بارے میں سرکار رسالت مآب کا ایک ایسا کردار پیش کرتی ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہوسکتی ۔ واضح رہے کہ مذکورہ دیہاتی پرلے درجہ کا اجڈ، اور نہایت درشت خوتھا ، اس نے نہ تہذیب وشائستگی سیکھی اور نہ اخلاق وآداب کے معمولی مراتب سے بھی روشناس تھا ، اس لئے اس نے اپنے خالص اجڈ پن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر غیر شائستہ انداز میں اپنا مدعا ظاہر کیا ۔ اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ حاکم وسلطان کے لئے مستحب ہے کہ وہ اپنی رعایا اور نادان لوگوں کی ایذاء پر صبر وتحمل کرے اور دوسری بات یہ کہ اپنی حیثیت عرفی اور اپنے وقار کی حفاظت کے لئے کسی کو کچھ دینا دانشمندی کا تقاضہ ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں