مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر ۔ حدیث 39

دجال جس شخص کو مصیبت میں ڈالے کا وہ درحقیقت راحت میں ہوگا

راوی:

وعن حذيفة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إن الدجال يخرج وإن معه ماء ونارا فأما الذي يراه الناس ماء فنار تحرق وأما الذي يراه الناس نارا فماء بارد عذب فمن أدرك ذلك منكم فليقع في الذي يراه نارا فإنه ماء عذب طيب . متفق عليه . وزاد مسلم إن الدجال ممسوح العين عليها ظفرة غليظة مكتوب بين عينيه كافر يقرؤه كل مؤمن كاتب وغير كاتب .

اور حضرت حذیفہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا دجال اس حالت میں ظاہر ہوگا کہ اس ساتھ پانی ہوگا اور آگ ہوگی، تا ہم لوگ جس چیز کو پانی سمجھیں گے وہ حقیقت میں جلانے والی ہوگی اور جس چیز کو لوگ آگ سمجھیں گے وہ حقیقت میں ٹھنڈا اور شیریں پانی ہوگا پس تم میں سے جو شخص اس کو (یعنی دجال اس کی تکذیب سے ناراض ہو کر اس کو اپنی آگ میں ڈال دے گا ) کیونکہ حقیقت میں وہ (آگ نہیں ہوگی بلکہ نہایت شیریں اور پسندیدہ پانی ہوگا ۔ " (بخاری ومسلم ) اور مسلم نے اپنی روایت میں یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں کہ ۔ " دجال ممسوح العین ہوگا (یعنی اس کی ایک آنکھ کی جگہ پیشانی کی طرح بالکل سپاٹ ہوگی کہ وہاں آنکھ کا کوئی نشان بھی نہیں ہوگا ) اور اس پر (یعنی دوسری آنکھ پر ) بھاری نامنہ ہوگا گویا اس کی ایک آنکھ تو بالکل غائب ہی ہوگی اور دوسری آنکھ پر بھی گوشت یا کھال کا ایک موٹا ٹکڑا ہوگا ، یا یہ معنی ہیں کا اس غائب آنکھ پر ناخنہ ہوگا ) اور اس کی آنکھوں کے درمیان کافر " کا لفظ لکھا ہوگا ۔ اور اس لفظ کو ہر مؤمن پڑھے گا خواہ وہ لکھنا ( اور پڑھنا ) جانتا ہو یا نہ جانتا ہو ۔ "

تشریح
" اس کے ساتھ پانی ہوگا " میں " پانی " سے مراد اسباب عیش وراحت میں سے وہ چیز ہے جس کا بظاہر بہت قریبی تعلق پانی سے ہوگا اور جس کے ذریعہ وہ لوگوں کو اپنی اتباع کی طرف مائل کرے گا ، اسی طرح " آگ " سے مراد وہ چیز ہے جو بظاہر اذیت وتکلیف میں مبتلا کرنے والی ہوگی ورنہ حقیقت کے اعتبار سے ان لوگوں کو کوئی تکلیف واذیت نہیں پہنچائے گی جو اس (دجال ) کو جھٹلائیں گے اور اس کی اتباع کرنے سے انکار کر دیں گے ۔
لوگ جس چیز کو پانی سمجھیں گے الخ کا مطلب یہ ہے کہ دجال جن چیزوں کو ان لوگوں کی نظر میں عیش وراحت کی چیزیں کر کے دکھائے گا یا جن چیزوں کو وہ اذیت وتکلیف پہنچانے والے اسباب ظاہر کرے گا وہ حقیقت کے اعتبار سے برعکس ہوں گی مثلا جن کو اپنی اتباع کرنے کے صلہ میں اس پانی سے نوازے گا آخر الامر وہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آگ میں جلیں گے اسی طرح وہ جن لوگوں کو اپنی نافرمانی کی سزا کے طور پر آگ کے سپرد کرے گا اس آگ کو اللہ تعالیٰ ٹھنڈک اور راحت پہنچانے کے لئے ، پانی کی تاثیر عطا کر دے گا جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے نمرود کی آگ کو ٹھنڈا اور باعث راحت بنا دیا گیا تھا پس حاصل یہ نکلا کہ جو چیزیں دجال کے ذریعہ ظاہر ہوں گی اور فتنہ کا باعث بنیں گی ان کی حقیقت وہ نہیں ہوگی جو بظاہر نظر آئے گی بلکہ وہ طلسماتی اور خیالی چیزیں ہوں گی جیسا کہ طلسم جاننے والے شعبدہ باز اپنے کرتب دکھاتے ہیں لیکن جیسا کہ پہلے بتایا گیا ، یہ بھی احتمال ہے کہ اس کے دریعہ ظاہر ہونے والی چیزیں حقیقی ہی ہوں گی مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے حکم سے ان کی تاثیر الٹی ہو جائے گی کہ پانی تو جلائے گا اور آگ ٹھنڈک پہنچائے گی ۔
کیونکہ وہ نہایت شیریں اور پسندیدہ پانی ہوگا ۔ " یعنی بظاہر آگ نظر آنے والی چیز یا تو حقیقت کے اعتبار سے یا ماہیت کے بدل دیئے جانے کے اعتبار سے اور یا آخری مآل وانجام کے اعتبار سے، پانی ہوگا جو ٹھنڈک وراحت پہچانے کا باعث بنے گا ! واضح رہے کہ حدیث میں اس موقع پر اختصار سے کام لیا گیا ہے اور صرف ایک ہی جزء کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے ، ورنہ حقیقت میں یہاں اس دوسرے جزء کا مفہوم بھی پوشیدہ ہے کہ اور اس کو چاہئے کہ وہ اس کے پانی (یعنی اس کے اسباب عیش وراحت کی طرف مائل ہو کر اس (دجال ) کی تصدیق واتباع نہ کرے کیونکہ حقیقت میں وہ پانی نہیں ہوگا بلکہ ایک طرح کا عذاب وحجاب ہوگا ۔
" دجال ممسوح العین ہوگا الخ " کے سلسلہ میں ، جیسا کہ ترجمہ کے دوران وضاحت کر دی گئی ہے ، یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ ناخنہ کا تعلق اسی آنکھ سے ہے جس کو ممسوح فرمایا گیا ہے حالانکہ یہ بات موزوں نہیں ہے کیونکہ ) ممسوح العین کے معنی ہی یہ ہیں کہ معنی لا محالہ یہی کہا جائے گا کہ ناخنہ اس کی آنکھ پر ہوگا جو دوسری جانب ہوگی ، ہاں اگر " ممسوح سے مراد محض " عیب " لیا جائے تو اس صورت میں حدیث کے الفاظ اپنے ظاہری معنی پر محمول ہو سکتے ہیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں