مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ آنحضرت کی بعثت اور نزول وحی کا بیان ۔ حدیث 423

آغاز وحی کی تفصیل :

راوی:

وعن عائشة رضي الله عنها قالت : أول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه و سلم من الوحي الرؤيا الصادقة في النوم فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح ثم حبب إليه الخلاء وكان يخلو بغار حراء فيتحنث فيه – وهو التعبد الليالي ذوات العدد – قبل أن ينزع إلى أهله ويتزود لذلك ثم يرجع إلى خديجة فيتزود لمثلها حتى جاءه الحق وهو في غار حراء فجاءه الملك فقال : اقرأ . فقال : " ما أنا بقارئ " . قال : " فأخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال : اقرأ . فقلت : ما أنا بقارئ فأخذني فغطني الثانية حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال : اقرأ . فقلت : ما أنا بقارئ . فأخذني فغطني الثالثة حتى بلغ مني الجهد ثم أرسلني فقال : [ اقرا باسم ربك الذي خلق . خلق الإنسان من علق . اقرأ وربك الأكرم . الذي علم بالقلم . علم الإنسان ما لم يعلم ] " . فرجع بها رسول الله صلى الله عليه و سلم يرجف فؤاده فدخل على خديجة فقال : " زملوني زملوني " فزملوه حتى ذهب عنه الروع فقال لخديجة وأخبرها الخبر : " لقد خشيت على نفسي " فقالت خديجة : كلا والله لا يخزيك الله أبدا إنك لتصل الرحم وتصدق الحديث وتحمل الكل وتكسب المعدوم وتقري الضيف وتعين على نوائب الحق ثم انطلقت به خديجة إلى ورقة بن نوفل ابن عم خديجة . فقالت له : يا ابن عم اسمع من ابن أخيك . فقال له ورقة : يا ابن أخي ما ذا ترى ؟ فأخبره رسول الله صلى الله عليه و سلم خبر ما رأى . فقال ورقة : هذا هو الناموس الذي أنزل الله على موسى يا ليتني فيها جذعا يا ليتني أكون حيا إذ يخرجك قومك . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أو مخرجي هم ؟ " قال : نعم لم يأت رجل قط بمثل ما جئت به إلا عودي وإن يدركني يومك أنصرك نصرا مؤزرا . ثم لم ينشب ورقة أن توفي وفتر الوحي . متفق عليه وزاد البخاري : حتى حزن النبي صلى الله عليه و سلم – فيما بلغنا – حزنا غدا منه مرارا كي يتردى من رؤوس شواهق الجبل فكلما أوفى بذروة جبل لكي يلقي نفسه منه تبدى له جبريل فقال : يا محمد إنك رسول الله حقا . فيسكن لذلك جأشه وتقر نفسه

اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کا سلسلہ جس چیز سے شروع ہوا وہ سوتے میں سچے خوابوں کا نظر آنا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو خواب دیکھتے اس کی تعبیر (کسی ابہام واشتباہ کی آمیزش کے بغیر ) اس طرح روشن ہو کر سامنے آجاتی جیسے صبح کا اجالا (ظاہر ہوجاتا ) اس کے بعد جب کہ ظہور نبوت کا وقت آنے کو ہوا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہائی کا شائق بنا دیا گیا ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں گوشہ نشین رہنے لگے ، اس غار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کیا کرتے یعنی متعدد راتیں وہیں عبادت میں اس وقت تک مشغول رہتے جب تک کہ گھر والوں (کے پاس جانے ) کا اشتیاق پیدا نہ ہوجاتا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (ان عبادت کی راتوں کے لئے گھر سے ) کھانے پینے کی چیزیں لے جاتے اور (جب وہ چیزیں ختم ہوجاتیں تو ) پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آتے اور اگلی راتوں کے بقدر کچھ چیزیں لے کر واپس غار میں چلے جاتے (یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا ) یہاں تک کہ حق (کے ظہور کا وقت ) آگیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بھی غار حرا ہی میں تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتہ (یعنی جبرائیل علیہ السلام اور ایک روایت کے مطابق اسرافیل علیہ السلام آیا اور کہا کہ پڑھو ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا میں پڑھنا نہیں جانتا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : فرشتہ نے (میرا یہ جواب سن کر ) مجھ کو پکڑ لیا اور (خوب زور سے ) بھینچا یہاں تک کہ میں پریشان ہوگیا ، پھر اس (فرشتہ ) نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا : پڑھو !میں نے وہی جواب دیا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں فرشتہ نے دوسری مرتبہ مجھ کو پکڑ لیا اور (خوب زور ) سے بھینچا یہاں تک کہ میں پریشان ہوگیا ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو میں نے اب بھی یہی کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا فرشتہ نے تیسری مرتبہ مجھ کو پکڑا اور (خوب زور سے ) بھینچا یہاں تک میں پریشان ہوگیا ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا : اقرأ باسم ربک الذی خلق ، خلق الانسان من علق اقرأ وربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم۔ یعنی پڑھو اپنے پروردگار کے نام سے جس نے (تمہیں اور ہر چیز ) کو پیدا کیا ، انسان کو (رحم مادر میں ) بستہ خون سے پیدا کیا ، پڑھو ، اور تمہارا پروردگار سب سے بزرگ وبرتر ہے وہ پروردگار جس نے قلم کے ذریعہ بہت سے علم کی تعلیم دین اور انسان کو ہر وہ چیز سکھائی جس کو وہ نہ جانتا تھا ۔ اس کے بعد (فرشتہ تو غائب ہوگیا اور ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان آیتوں کے ساتھ مکہ (اپنے گھر ) واپس آئے اس وقت یہ حال تھا کہ (وحی کی شدت رعب سے سخت دہشت زدہ تھے اور نہ صرف ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل کانپ رہا تھا (بلکہ بخار اور لرزہ کی کیفیت پورے جسم پر طاری تھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس پہنچ کر کہا کہ مجھے کپڑے اڑھاؤ مجھے کپڑے اڑھاؤ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑا اڑھا دیا یہاں تک کہ (کچھ دیر کے بعد اس رعب وہیبت کی شدت ختم ہوئی تو ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوف وہراس جاتا رہا (اور اصل جسمانی حالت بحال ہوئی ) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پورا واقعہ بتایا اور ان سے یہ بھی فرمایا کہ مجھ کو اپنی جان کا خوف ہے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے (تسلی دیتے ہوئے ) کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قطعا خوف نہ کرئیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو سوچ رہے ہیں ایسا ہرگز نہیں ہوگا ) اللہ کی قسم (مجھے پورا یقین ہے کہ ) اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی رسوا اور بے مراد نہیں کرے گا کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) قرابت داروں سے حسن سلوک وتعلق کا معاملہ رکھتے ہیں (اگرچہ وہ قرابت دار آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) قرابت داروں سے حسن سلوک وتعلق کا معاملہ رکھتے (اگر چہ وہ قرابت دار آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) سے ترک وتعلق اور بدسلوکی ہی کا معاملہ کیوں نہ کرتے ہوں ) آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کبھی کسی سے جھوٹ نہیں بولتے اگرچہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹ بولے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلائیں بعض روایتوں میں یہاں یہ الفاظ بھی ہیں کہ تو دی الامانۃ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم امانت کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم غریبوں مسکینوں پر خرچ کرنے کے لئے کماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہمانوں کی خاطر مدارات کرتے ہیں اور ان کی ہر طرح سے مدد کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی حقیقی حادثات ومصائب میں ان کی مدد کرتے ہیں اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ ابن نوفل کے پاس پہنچی اور ان سے کہا کہ اے ابن عم اپنے بھتیجے کی روداد سن لیجئے ورقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوا اور کہا میرے بھتیجے تم پر کیا بیتی اور تم کیا دیکھتے اور محسوس کرتے ہو ؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے سارا واقعہ بیان کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آیا تھا ورقہ نے ساری باتیں سن کر کہا کہ تم دونوں کو مبارک ہو یہ تو وہی ناموس فرشتہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ وحی دے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجتا تھا اے کاش تمہاری نبوت کا اظہار اور تمہاری دعوت کے اعلان کے وقت میں طاقتور جوان ہوتا کاش میں اس وقت زندہ ہی رہتا چاہے میرے اندر طاقت وتوانی نہ ہوتی جب تمہاری قوم یعنی قریش میں سے تمہارے قرابت دار تمہارے شہر سے تمہیں نکال دیں گے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر حیرت کے ساتھ پوچھا کیا واقعی میری قوم شہر سے نکال دے گی؟ ورقہ نے کہا ہاں مجھے یقین ہے کہ تمہاری قوم کے لوگ تمہیں شہر سے ضرور نکال دیں گے کیونکہ ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ جب بھی کوئی شخص تمہاری طرح نبوت وشریعت لے کر اس دنیا میں آیا اس کے ساتھ دشمنی کی گئی ایک روایت میں یوں ہے جب بھی کوئی پیغمبر اس دنیا میں آیا کافروں نے اس کے ساتھ دشمنی رکھی اور اس کو سخت ترین ایذائیں پہچائیں اگر میں ان ایام میں جب تم لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلاؤ گے اور اس کے جواب میں تمہاری قوم کے لوگ تمہیں ایذاء پہنچائیں گے اور تمہیں تمہارے شہر سے نکالیں گے ) زندہ رہا تو پوری طاقت وقوت سے تمہاری مدد وحمایت کروں گا ۔ لیکن اس کے بعد ورقہ زیادہ دن نہ رہے اور جلدی ہی اس دنیا سے چلے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنے کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا ۔ اس روایت کو یہاں تک بخاری ومسلم دونوں نے نقل کیا ہے لیکن اس کے بعد بخاری نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ : (نزول وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا تو ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر غم وحزن طاری ہوگیا ، جس کا ثبوت ہمیں ان حدیثوں سے بھی ملتا ہے جو ہم تک پہنچی ہیں اور یہ غم وحزن اتنا شدید اور سخت تھا کہ کئی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو اس ارادہ سے پہاڑوں پر گئے کہ اپنے آپ کو ان اونچے پہاڑوں کی چوٹی سے نیچے گرا دیں ، جب بھی آپ کس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تاکہ اپنے آپ کو نیچے گرادیں تو (اچانک ) جبرائیل علیہ السلام ظاہر ہوتے اور کہتے : محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) بلاشبہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ تعالیٰ کے برحق رسول ہیں اس صورت میں یقینًا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ہر کلفت وپریشانی ختم ہو کر رہے گی اور انجام کار دین ودنیا کے ہر معاملہ میں آپ بامراد رہیں گے اگرچہ درمیان میں کتنے ہی مشقت وابتلاء کے مراحل سے گذرنا پڑے ) چنانچہ (حضرت جبرائیل علیہ السلام کی یہ بشارت سن کر ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کا اضطراب ، دہشت اور قلق جاتا رہتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطمئن ہوجاتے ۔"

تشریح
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ روایت ابتداء نزول وحی کی ساری تفصیل یا تو براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یا کسی صحابی سے نقل کرکے بیان کی ہے کیونکہ ظہور نبوت کے ابتدائی زمانہ میں تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وجود بھی نہیں تھا ۔
وہ سوتے میں سچے خوابوں کا نظر آنا تھا کے ضمن میں شارحین نے یہ اقوال نقل کئے ہیں کہ ظہور نبوت سے پہلے سچے خواب نظر آنے کی اس کیفیت وحالت کا عرصہ چھ ماہ رہا ۔ نیز سچے خواب کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خوابیدہ شخص کے دل ودماغ اور اس کے احساسات پر ان چیزوں کا عکس ڈال دیتا ہے جو آئندہ وقوع پذیر ہونے والی ہوتی ہیں یا پہلے ہی وقوع پذیر ہوچکی ہوتی ہیں لیکن پہلے سے اس شخص کے علم میں نہیں ہوتی اس طرح جیسے بیداری کی حالت میں میں انسانی دل ودماغ اور ادراک واحساس بھی بیدار رہتے ہیں تقریبًا اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس خوابیدہ شخص کا ادراک واحساس بھی بیدار ہوجاتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر وبیشتر وہ شخص خواب میں جو کچھ دیکھتا ہے اس کی بعینہ عملی اور وجودی تعبیر وہ جاگنے کے بعد دیکھ یا جان لیتا ہے یہ چیز حق تعالیٰ کے حکم وقدرت کے تحت ہے اور عملی دنیا میں ناممکن بالکل نہیں ہے ، اس قادر مطلق کوہرچیز پر قدرت حاصل ہے کہ اس کے کسی حکم وفعل کی راہ میں نہ نیند رکاوٹ بن سکتی ہے اور نہ کوئی اور چیز ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں گوشہ نشین رہنے لگے ۔ حراء اس مشہور پہاڑ کا نام ہے جو مکہ کے نواح میں واقع ہے اس پہاڑ کو جبل ثور بھی کہا جاتا ہے ۔ یہاں سے خانہ کعبہ نظر آتا ہے ، اور شاید اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشہ نشینی اور عبادت الٰہی کے لئے اس پہاڑ کے ایک غار کو منتخب فرمایا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عبدالمطلب نے بھی واقعہ فیل کے دوران اسی پہاڑ کو اپنی پناہ گاہ بنایا اور اسی جگہ دعا ومناجات میں مشغول رہے ۔
حدیث کے اس جملہ کے تحت شارحین حدیث نے خلوت گزینی اور گوشہ نشینی کے بارے میں بڑی مفید باتیں لکھی ہیں ، مثلا خلوت گزینی اللہ کے نیک وصالح اور عارف بندوں کی مخصوص شان ہے اسی لئے ظہور نبوت سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا شائق بنایا گیا اور اس کی حکمت یہ ہے کہ خلوت وتنہائی میں دل ودماغ کو مکمل سکون اور فراغت حاصل ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف پوری طرح متوجہ رہنے کا موقع خوب ملتا ہے دنیاوی علائق وتفکرات اور انسانی تقاضوں اور بشری مرغوبات سے انقطاع رہتا ہے اللہ کی یاد اور اس کی عبادت میں خشوع وخضوع ، نورانیت وطمانیت اور خاطر جمعی بہت اچھی طرح میسر آتی ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر حالت میں اور ہرموقع پر خلوت گزینی اور گوشہ نشینی ہی سب سے اچھی چیز اور شریعت کی نظر میں زیادہ مطلوب وپسندیدہ ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ خلوت وعزلت کی طرح جلوت اور اختلاط کی بھی اہمیت ہے ، اور ان دونوں میں سے کون سی صورت افضل ہے ، اس کا مدار پیش آمدہ حالات ومعاملات کے حسن وقبح پر ہے اور ان دونوں میں سے ہر ایک صورت ان شرائط وضروریات کے تحت کہ جن کا شریعت میں اعتبار ہے اپنے اپنے موقع پر افضل وبرتر ہے ، اگر معاشرہ میں خرابیاں اور برائیاں چھوت کی طرح پھیل گئی ہوں ، اور لوگوں کے ساتھ اختلاط رکھنے میں دین وایمان کے نقصان کا خطرہ ہو اور کوئی شخص نصیحت سننے اور اچھی بات ماننے پر تیار نہ ہو تو اس صورت میں خلوت گزینی اور گوشہ نشینی کو افضل کہا جائے گا اور اگر دین و ایمان کے نقصان کا خطرہ نہ ہو ، لوگ تعلیم ونصیحت کے ضرورت مند ہوں اور یہ بات معلوم ہو کہ لوگوں کو تعلیم ونصیحت کے ذریعہ نیکی کی تربیت دی جاسکتی ہے تو اس صورت میں سب کے ساتھ اختلاط رکھنے اور سماجی زندگی اختیار کرنا ہی افضل ہوگا ۔
" تحنث " کے معنی ہیں راتوں کو عبادت کرنا جیسا کہ خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یا کسی راوی نے فیتحنث فیہ کے بعد وہو التعبد اللیالی کے ذریعہ اس لفظ کی وضاحت کی ہے ۔ بہرحال ' متعدد راتوں 'سے مراد کئی کئی روز وشب ہیں اور خاص طور پر " راتوں " ہی کا ذکر اس وجہ سے ہی کیا گیا ہے " خلوت کے ساتھ " رات " ہی کا جوڑ زیادہ موزوں اور مناسب تھا نیز " متعدد " کی جو قید لگائی گئی ہے اس سے قلت کی طرف اشارہ مراد ہے کہ مسلسل شب وروز عبادت کی مشغولیت کا سلسلہ زیادہ دنوں تک نہیں بلکہ چند دنوں تک رہتا تھا ، تاہم بعض حضرات نے اس سے " کثرت " کا مراد ہونا بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا ہے کیونکہ کسی بھی تسلسل کو ذکر کرنے کی ضرورت اسی صورت میں ہوتی ہے جب کہ وہ غیر معمولی طور دراز ہو اور زیادہ دنوں پر مشتمل ہو۔
" جب تک کہ گھر والوں کا اشتیاق پیدا نہ ہوجاتا " کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس غار حرا سے نکل کر شہر میں اسی وقت آتے جب مسلسل کئی کئی دنوں تک عبادت الٰہی میں مشغول رہنے کے بعد گھر والوں کی خبر لینے اور ان کے حقوق وضروریات کو پورا کرنے کے لئے ان کے پاس جانے کی خواہش پیدا ہوجاتی ۔ یہاں یہ ذکر کر دینا ضروری ہے کہ ایک روایت میں" ینزع " کے بجائے " یرجع " کا لفظ آیا ہے ۔
" اگلی راتوں کے بقدر کچھ چیزیں لے کر واپس غار میں چلے جاتے ۔" کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب تک خلوت گزین اور گوشہ نشین رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ عبادت کے لئے غار حرا میں چلے جاتے اور جب وہاں کھانے پینے کا سامان ختم ہوجاتا تو شہر میں اپنے گھر آتے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کچھ اور دنوں کا توشہ جیسے ستو وغیرہ لے کر اس غار میں چلے جاتے ، اور ان چیزوں کے لے جانے کا اصل مقصد یہ ہوتا تھا کہ بھوک پیاس کی شدت خلوت گزینی کے معمولات میں رکاوٹ نہ ڈالے اور پوری خاطر جمعی کے ساتھ عبادت میں مشغول رہ سکیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے بقدر توشہ اپنے ساتھ رکھنا توکل کے منافی نہیں ہے ۔ محققین نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت گزینی کی مدت ہر سال ایک مہینہ ہوتی تھی اور وہ مہینہ رمضان کا ہوتا تھا ۔
اس بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے سابقہ شریعتوں میں سے کس شریعت کی اتباع کرتے تھے یا اپنی عقل سے جس عمل کو اچھا سمجھتے تھے اس پر عامل رہتے تھے اور یا ہر شریعت میں سے ہر اس عمل کو اختیار فرماتے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم افضل واعلی سمجھتے تھے ؟ اور یہ کہ اگر سابقہ شریعتوں میں سے کس شریعت کی اتباع کرتے تھے تو وہ کونسی شریعت تھی؟ بہت سے علماء نے اگرچہ اس قول کو اختیار کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نبوت وشریعت کے ظہور سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر عمل کرتے تھے اسی لئے ایک روایت میں " یتحنث " کے بجائے " یتحنف " کا لفظ آیا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دین حنیف حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر عمل کرتے تھے لیکن اس سلسلہ میں زیادہ موزوں اور مناسب اور زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ قبل نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عملی طور پر کسی دین اور کسی شریعت کے تابع نہیں تھے بلکہ براہ راست حق تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب ودماغ کو بصیرت کا وہ نور عطا فرمایا گیا تھا جو نیک اور اچھے عمل کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کرتا تھا اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بخود وہی کام اور وہی عمل کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ اور مقبول ہوتا تھا ۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کا تعلق ذکر وشغل سے ہوتا تھا یا فکر واستغراق سے ؟ اس بارے میں بھی کئی قول ہیں اور زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت ذکروشغل کی صورت میں ہوتی تھی نہ کہ فکر واستغراق کی صورت میں ۔
میں پڑھنا نہیں جانتا ۔" کا مطلب یا تو یہ تھا کہ میں اچھی طرح پڑھنے پر قادر نہیں ہوں ' یا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ جواب اس خوف ودہشت کی بناپر نکلا جو اچانک ایک فرشتہ کو دیکھنے اور موقع ومحل کے نہایت پر رعب ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل ودماغ پر طاری ہوگیا تھا ، لہٰذا یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب اس لئے دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امی تھے اور واقعتہ پڑھنے پر قادر نہیں تھے ، کیونکہ امی (ان پڑھ ) اس شخص کو کہتے ہیں جو پڑھنا نہ جانے ، اور ظاہر ہے کہ کسی کے پڑھانے اور سکھانے سے پڑھنا (یعنی کسی کی زبان سے کوئی عبارت اور جملہ سن کر اپنی زبان سے ادا کرنا ) امی ہونے کے منافی نہیں ہے خصوصًا ایسے شخص کے حق میں جو فصاحت اور ذہانت میں کامل ہو، جہاں تک کسی لکھی ہوئی عبارت کو دیکھ کر پڑھنے یا لکھنے کا تعلق ہے تو یہ چیز امی ہونے کے منافی ہے چنانچہ قاموس میں لکھا ہے امی اس شخص کو کہتے ہیں جو لکھنا اور کتاب پڑھنا نہ جانے ۔" بعض روایتوں میں یہ منقول ہے کہ اس موقع پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ایک حریری صحیفہ جو جواہرات سے مرصع تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اس کو پڑھو ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں پڑھنا نہیں جانتا " اور ان حریری اوراق میں مجھے کچھ لکھا ہوا نظر نہیں آتا میں کیا پڑھوں ۔ اس روایت کی روشنی میں " میں پڑھنا نہیں جانتا " کے معنی زیادہ واضح اور موزوں طور پر متعین کئے جاسکتے ہیں ۔
" یہاں تک میں پریشان ہوگیا " حتی بلغ منی الجہد کا یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب کہ لفظ جہد میں حرف ومنصوب یعنی جہد پڑھا جائے اور مطلب یہ ہوگا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینہ سے لگا کر بہت زور سے بھینچا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ تکلیف بھی محسوس ہوئی اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کا یہ عمل دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود پاک میں ملکوتی نور اور قلب مبارک میں وحی کے عرفان کو منتقل کرنے کی ایک ایسی صورت تھی جس کا مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی الہٰی کی عظمتوں کے تحمل کی طاقت وقوت فراہم کرنا تھا ۔ اور اگر لفظ " جہد " کے ج کو مرفوع یعنی جہد پڑھا جائے تو اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مجھے اتنے زور سے بھینچا کہ خود انہیں بڑی مشقت اٹھانا پڑی ۔
" جس نے تمہیں اور ہر چیز کو پیدا کیا " کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں اپنی ذاتی صلاحیت وطاقت یا کسی دوسرے کی مدد پر اعتماد اور بھروسہ نہ کرنا چاہئے بلکہ ہر معاملہ میں اور ہر مرحلہ میں صرف اللہ تعالیٰ پر تکیہ کرنا چاہئے اور اسی سے مدد کا طلب گار رہنا چاہئے کیونکہ اس نے ہر ایک کو پیدا کیا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے ۔ اس موقع پر ایک خاص بحث کردینا ضروری ہے ، اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ سب سے پہلے قرآن کی کون سے سورت نازل ہوئی ہے ؟ جیسا کہ اس روایت سے بھی ثابت ہوتا ہے ، جمہور علماء ومفسرین کا قول یہ ہے کہ سب سے پہلے سورت اقراء نازل ہوئی ہے لیکن بعض حضرات نے کہا ہے کہ سب سے پہلے نازل ہونے والی سورت یا ایہا المدثر ہے ، گو یہ قول بہت کمزور ہونے کی وجہ سے قابل اعتنا نہیں ہے لیکن ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس ضمن میں جو لکھا ہے اس سے ان دونوں اقوال کے درمیان بڑی تطبیق ہوجاتی ہے ، انہوں نے کہا ہے ! میرے نزدیک یہ کہنا زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ سورت اقرء تو حقیقی پہلی سورت ہے اور " یا ایہا المدثر" اضافی پہلی سورت ہے یعنی پہلی وحی (سورۃ اقرء ) نازل ہونے کے بعد نزول وحی کا جو سلسلہ کچھ عرصہ کے لئے منقطع ہوگیا تھا اور پھر یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا تو اس وقت سب سے پہلے یا ایہاالمدثر ۔ نازل ہوئی ۔ ضمنی طور پر اس بات کا ذکر بھی موزوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت ان حضرات کی دلیل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورت کا جزء نہیں ہے بلکہ اس کا نزول دو سورتوں کے درمیان فصل قائم کرنے کے لئے ہوا ہے ۔
" جس نے قلم کے ذریعہ بہت سے علم کی تعلیم دی ۔" میں قلم سے مراد وہ قلم قدرت بھی ہوسکتا ہے جو اللہ کے حکم سے اولین وآخرین کے تمام علوم کو ضبط تحریر میں لایا ، اور تمام آسمانی کتابوں کے معرض وجود میں آنے کا اولین ذریعہ بنا اور ہماری دنیا کا یہ قلم بھی مراد ہوسکتا ہے جو حقیقت میں اس کائنات انسانی میں قلم و قدرت کا مظہر اور مثال ہے اور جس کے ذریعہ انسان اللہ کے عطا کردہ نور علم وذہانت کی مدد سے نہ معلوم کتنے علوم وحقائق کا اظہار وانکشاف کرتا ہے ۔ مشہور تفسیر کشاف میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ : ہمارا یہ قلم اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال کا عظیم مظہر ہے کہ عجیب وغریب علوم اس کے ذریعہ لکھے جاتے ہیں ۔
انسان کی ہر وہ چیز سکھائی جس کو وہ جانتا نہیں تھا ۔ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اپنے بس کی بات نہیں تھی کہ زمان ومکان میں ہرلمحہ وجود پذیر ہونے والی نئی نئی چیزوں کے علم وانکشاف پر قادر ہوتا ، یہ تو اللہ کے عطا کردہ اس نور علم وذہانت کا کرشمہ ہے جو انسان کو علم ومعرفت کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے ۔ہوسکتا ہے کہ یہاں " انسان" سے مراد انسان کامل یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہو، اس صورت میں کہا جائے گا کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی طرف اشارہ ہے ۔
وعلمک مالم تکن تعلم وکان فضل اللہ علیک عظیما ۔
اور ہر وہ چیز آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو سکھائی جو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں جانتے تھے ، اور یہ آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے ۔
مجھ کو اپنی جان ہے ۔" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اظہار خوف کی مختلف وجوہ ہوسکتی تھیں ، یا تو اس صورت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفعۃً اتنا شدید خوف طاری ہوگیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہلاکت یادماغی توازن کے درہم برہم ہوجانے کے خطرہ کو محسوس کرنے لگے تھے ، یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ڈر تھا کہ منصب نبوت کا بار برداشت سے باہر نہ ہوجائے یا اس منصب کے فرائض کی ادائیگی میں جو مصائب وپریشانیاں اٹھانا پڑیں گی ، قوم کی طرف سے جن ایذاؤں اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا قتل وغارت گری کی جو دھمکیاں ملیں گی اور لوگ جس طرح تکذیب واستہزاء کا سلوک کریں گے ان پر صبر وضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے اور یا آپ کو یہ خوف تھا کہ اہل وطن مجھے اپنے شہر اور وطن سے نکال دیں گے جس کی وجہ سے اپنے محبوب وطن اور کعبۃ اللہ کا قرب چھوٹ جائے گا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم (دوسروں کا ) بوجھ اٹھاتے ہیں ۔" یہ تحمل الکل کا ترجمہ ہے ، اور کل اصل میں بوجھ اور بار کو کہتے ہیں اور اسی مناسبت سے کہ اہل وعیال کی خبر گیری اور ان کی ضروریات کی کفالت ایک بوجھ اور بار ہوتا ہے ۔ اہل وعیال کو بھی کل کہا جاتا ہے لہٰذا اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا وصف یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل وعیال اور زیر کفالت لوگوں کے خرچ واخراجات اور ان کی ذمہ داریوں کا بوجھ نہایت خوش دلی کے ساتھ اٹھاتے ہیں اور اس راہ میں پیش آنے والی محنت ومشقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدل نہیں سکتی اگرچہ وہ لوگ کہ جن کا بوجھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھاتے ہیں آپ سے ترک تعلق اور بے مروتی کا معاملہ کیوں نہ کریں ۔ واضح رہے کہ یہاں " بوجھ اٹھانے " کے معنی میں ضعیفوں ، یتیموں ، بیواؤں اور ناداروں پر خرچ کرنا بھی شامل ہے ۔
" آپ غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کرنے کے لئے کماتے ہیں ۔ یہ تکسب المعدوم کا ترجمہ ہے اور یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب کہ تکسب کو ت کے زبر کے ساتھ پڑھا جائے ، جیسا کہ زیادہ صحیح اور مشہور ہے اور بعض روایتوں میں یہ لفظ ت کے پیش کے ساتھ بھی منقول ہے اس صورت میں ترجمہ یوں ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غریبوں اور مسکینوں کی کمانے میں مدد کرتے ہیں ، یعنی ان کو روپیہ پیسہ اور مال دیتے ہیں تاکہ وہ لوگ اس کے ذریعہ کسب وتجارت کی صورت میں اپنی معاشی حالت درست کریں اور افلاس وتنگ دستی سے چھٹکارا پائیں ۔ بہرحال دونوں صورتوں میں مفہوم ومطلب ایک ہی ہوگا ۔ یعنی نیک کاموں میں اپنا مال خرچ کرنا ۔ بعض حضرات نے " معدوم " کا مصداق صرف " فقیر" کو قرار دیا ہے جو عدم تصرف اور بالکل محتاج ہونے کے اعتبار سے گویا ایک لاشہ ہوتا ہے ، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا مال فقیروں پر خرچ کرکے گویا ان کی زندگی اور ان میں حرکت وعمل پیدا ہوجانے کا سبب بنتے ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے حقیقی حادثات ومصائب میں ان کی مدد کرتے ہیں ۔" یہ تعین علی نوائب الحق کا ترجمہ ہے نوائب اصل میں نائبۃ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں وہ مصیبت وضرورت جو آن پڑے ۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ہر اس شخص کی مدد واعانت فرماتے ہیں جو کسی حقیقی حادثہ اور مصیبت کے سبب درماندہ اور عاجز ہوجاتا ہے مثلا جو قرض یا دیت کے مال کی ادائیگی پر قادر نہیں ہوتا اور فقروافلاس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اپنی مصیبت کو ٹال نہیں پاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی مالی مدد دے کر اس مصیبت سے نجات دلاتے ہیں ۔ نوائب الحق " کی قید سے معلوم ہوا کہ اسی مصیبت زدہ کی مددواعانت مستحسن ومطلوب ہے جو قدرتی طور پر مجبور ولاچار ہو ۔ اگر کوئی شخص اپنی مصیبت کا خود سبب بنا ہو ، اس نے اپنی حرکتوں اور بے عملیوں سے اپنے اوپر مصیبت نازل کرلی ہو جیسے اسراف کی صورت میں اپنا مال وزر لٹا بیٹھا ہو، یا ناروا اطوار غصب وغصہ کرکے خود کو کسی نقصان اور آفت میں مبتلا کر بیٹھا ہو تو اس کی مدد کرنامستحسن ومطلوب نہیں ہے ۔
حضرت خدیجہ رضی للہ تعالیٰ عنہا نے اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محاسن واوصاف کا ذکر کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح تسلی دی اس سے معلوم ہوا کہ اچھے اخلاق اور اچھی خصلتیں انسان کو کسی نقصان اور آفت میں پڑنے سے بچاتی ہیں اور حق تعالیٰ ان اوصاف ومحاسن کے طفیل میں امن وسلامتی عطا فرماتے ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دین ودنیا کی ہر آفت ومصیبت سے محفوظ وسلامت رکھے گا ۔ اس سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں بھی ثابت ہوا کہ وہ انتہائی فراست وبصیرت ، معرفت وفقاہت اور دور اندیشی وسمجھداری کے بلندوبالامقام پر فائز تھیں، اور کیوں نہ ہوتیں جب کہ مدت درازتک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت وخدمت میں رہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حقیقی معنی میں سب سے پہلے ایمان لائیں ، اس وصف میں میں ان کا کوئی شریک نہیں ۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی خاص مصلحت وحکمت کے تحت بعض حالات میں کسی شخص کی اچھائیوں اور خوبیوں کی تعریف اس کے منہ پر کرنا جائز ہے ، اور یہ بھی معلوم ہوا اور کوئی شخص کسی معاملہ میں خوف زدہ ہو تو اس کو اطمینان وتسلی دینا اور اس کے سامنے امن وسلامتی کے اسباب کا ذکر کرنا چاہئے ، نیز اس حدیث میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر اپنا اختیار کردہ اور پسندیدہ تھا ، نہ کہ اضطراری اور غیر پسندیدہ تھا جس کا اصل منشاء سخاوت وکرم کے درجہ کمال کا اظہار تھا علاوہ ازیں ایک بات یہ بھی واضح ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں ان اچھائیوں اور خوبیوں کا نبوت سے بھی موجود ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ یہ تمام انسانی واخلاقی اوصاف ومحاسن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں طبعی وخلقی طور پر تھے ۔
" ورقہ بن نوفل " حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حقیقی چچا زاد بھائی تھے ، کیونکہ وہ خالد ابن اسد ابن عبدالعزی کی بیٹی تھی اور ورقہ ، نوفل ابن عبد العزی کے بیٹے تھے ، ورقہ اگرچہ مشرکین مکہ ہی سے نسبی تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے زمانہ جاہلیت میں نصرانیت (عیسائی مذہب ) اختیار کرلیا تھا ، پھر انہوں نے انجیل پر بڑا عبور حاصل کیا اور عربی میں اس کا ترجمہ کیا ظہور نبوت کے وقت جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ورقہ کے پاس گئیں تو اس زمانہ میں وہ بہت زیادہ ضعیف اور بوڑھے ہوچکے تھے ، یہاں تک کہ آنکھوں کی بینائی بھی بالکل ختم ہوگئی تھی ۔
" اے ابن عم! اپنے بھتیجے کی روداد سن لیئجے ۔" حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ کا بھتیجا محض ورقہ کے بڑھاپے کی بنا پر اور ان کی تعظیم کے پیش نظر کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت میں ورقہ کے بھتیجے تھے ، ویسے یہ عرب کا عام دستور تھا کہ لوگ آپس میں ملاقات ومخاطب کے وقت ایک دوسرے کوچچا بھتیجا کہتے تھے ۔
یہ تو وہی ناموس (فرشتہ ) ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ ۔' ' ناموس اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بادشاہ کاراز دار اور معتمد علیہ ہو، اس مناسبت سے اہل کتاب حضرت جبرائیل علیہ السلام کو " ناموس " کہا کرتے تھے ، بعض حضرات نے کہا کہ " ناموس خیریت (اچھی باتوں ) کے راز دار کو کہتے ہیں اور " جاموس " شر (بری باتوں ) کے راز دار کو کہا جاتا ہے ۔ ورقہ ابن نوفل چونکہ نصرانیت کے پیرو تھے اس اعتبار سے ان کے لئے مناسب اور موزوں یہ تھا کہ وہ یوں کہتے " یہ وہی ناموس ہے جس کو اللہ تعالیٰ وحی دے کر حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس بھیجتا تھا ۔ لیکن انہوں نے بے جاطور پر دینی تعصب کا شکار ہونے اور حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر کرنے کے بجائے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کتاب وشریعت کی جامعیت کے اعتبار سے زیادہ جلیل القدر پیغمبر تھے ۔
" تو پوری طاقت وقوت سے تمہاری مدد کروں گا ۔" کے تحت بعض علماء اور شارحین نے تو یہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ورقہ کے ایمان لانے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے ، ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے ، اگر یہ واقعہ نبوت کے ثابت وظاہر ہونے کے بعد کا ہے تو ظاہر ہے کہ ورقہ کو صحابی کہا جائے گا ۔ اور اگر اس واقعہ کا تعلق اظہار نبوت کے بالکل ابتدائی مراحل سے ہے تو اس صورت میں ورقہ کو صحابی نہیں کہا جائے گا ۔ اور ملاعلی قاری نے قاموس کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ورقہ کے ایمان واسلام کے بارے میں اختلاف کیا گیا ہے ،
" اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنے کا سلسلہ منقطع ہوگیا ۔" یعنی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ پہلی وحی آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ثابت و ظاہر ہوگئی تو اس کے بعد وحی آنی موقوف ہوگئی ، بعض حضرات کہتے ہیں کہ پھر تین سال تک کوئی وحی نہیں آئی ، بعض حضرات نے یہ مدت چھ ماہ اور بعض نے اڑھائی ماہ بیان کی ہے ۔ نیز علامہ ابن حجر لکھتے ہیں : سلسلہ وحی کے منقطع ہوجانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سورت اقرء اور یا ایہا المدثر کے نزول کے درمیان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام کی آمد کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا تھا بلکہ انقطاع وحی سے مراد نزول قرآن کے سلسلہ کا موقوف ہوجانا ہے ، اس عرصہ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام تو آتے رہتے تھے لیکن قرآن نہیں لاتے تھے اور کچھ عرصہ کے لئے نزول وحی کے موقوف ہوجانے میں مصلحت وحکمت یہ تھی کہ ابتدائی مرحلہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل جو خوف وہراس پیدا ہوگیا تھا اس کے اثرات زائل ہوجائیں اور اس خوف وہراس کی جگہ شوق وانتظار کے جذبات پیدا ہوجائیں ۔
دیر ست کہ دلدار پیامے نہ فرستاد
ننوشت سلامے وکلامے نہ فرستاد

یہ حدیث شیئر کریں