مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ آنحضرت کی بعثت اور نزول وحی کا بیان ۔ حدیث 427

خدا کے دین کے پہلی دعوت :

راوی:

وعن ابن عباس قال : لما نزلت [ وأنذر عشيرتك الأقربين ] خرج النبي صلى الله عليه و سلم حتى صعد الصفا فجعل ينادي : " يا بني فهر يا بني عدي " لبطون قريش حتى اجتمعوا فجعل الرجل إذا لم يستطع أن يخرج أرسل رسولا لينظر ما هو فجاء أبو لهب وقريش فقال : " أرأيتم إن أخبرتكم أن خيلا تخرج من سفح هذا الجبل – وفي رواية : أن خيلا تخرج بالوادي تريد أن تغير عليكم – أكنتم مصدقي ؟ " قالوا : نعم ما جربنا عليك إلا صدقا . قال : " فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد " . قال أبو لهب : تبا لك ألهذا جمعتنا ؟ فنزلت : [ تبت يدا أبي لهب وتب ] متفق عليه

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ جب یہ آیت (وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ) 26۔ الشعراء : 214) ۔ نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اس حکم کی تعمیل کے لئے فورًا ) نکل پڑے اور کوہ صفا پر چڑھ گئے (قریش کے قبائل کو ) پکارنا شروع کیا : اے فہر کی اولاد! اے عدی کی اولاد اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک تمام شاخوں کونام بنام پکارا ۔چنانچہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آواز پر ) قریش کے تمام قبائل اور گروہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد ) جمع ہوگئے یہاں تک کہ جو شخص (کسی عذر اور مجبوری کے سبب ) خود اس جگہ نہ پہنچ سکا تو اس نے (یہ) معلوم کرنے کے لئے (کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں سب کو بلایا ہے ) کسی کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیج دیا ۔غرضیکہ جب سب اہل قریش اور (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ) ابولہب آگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ : اگر میں تمہیں یہ خبردوں کہ (جنگجو) سواروں کا ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ سواروں کا ایک دستہ (مکہ کے ) جنگل سے نمودار ہوا ہے اور اس کا مقصد قتل وغارت گری کے لئے (دن یا رات کے کسی حصہ میں ) تم لوگوں پر اچانک ٹوٹ پڑنا ہے تو بتاؤ کہ کیا تم لوگ میری اس بات کو سچ مانو گے ۔سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہاں (ضرور سچ مانیں گے ) کیونکہ ہم نے تمہیں ہمیشہ سچا پایا ہے ۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (سنو) میں تم لوگوں کو اس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو (دنیا یا آخرت میں ) تمہارے سامنے پیش (آنے والا ہے ۔) (یہ سننا تھا کہ ) ابولہب (بھبک اٹھا اور ) کہنے لگا : ہلاکت اور نقصان میں پڑو تم ، کیا تم نے ہمیں اس لئے جمع کیا تھا ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی تبت یدا ابی لہب وتب (ہلاک ہوجائے ابولہب اور وہ ہلاک ہوگیا )۔" ( بخاری ومسلم)

تشریح :
تبت یدا ابی لہب میں یدا کا لفظ (جس کے معنی " دونوں ہاتھ " کے ہیں ) زائد ہے ، یا اس کے دونوں ہاتھوں سے مراد اس کا پورا وجود ہے ، اور چونکہ تمام اعضاء انسانی میں ہاتھ ہی ایسا عضو ہے جس سے انسان اپنے تمام خارجی کام کرتا ہے اور اس کا بیشتر انحصار ہاتھوں ہی میں ہوتا ہے، اس اعتبار سے ہاتھ بول کر پورا وجود مراد لیا جاتا ہے جیسا کہ ایک اور موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ذلک بما قدمت یداک نیز بعض روایتوں میں یہ آیاہے کہ اس موقع پر ابولہب کے دونوں ہاتھوں میں پتھر تھے، اور جب اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے مذکورہ الفاظ سنے تو انتہائی غصہ کی حالت میں وہ پتھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھینکے ۔ اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا : ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ برباد ہوجائے۔

یہ حدیث شیئر کریں