مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر ۔ حدیث 43

دجال کے کارناموں کا ذکر

راوی:

وعن أبي سعيد الخدري قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج الدجال فيتوجه قبله رجل من المؤمنين فيلقاه المسالح مسالح الدجال . فيقولون له أين تعمد ؟ فيقول أعمد إلى هذا الذي خرج . قال فيقولون له أو ما تبارك وتعالى ؤمن بربنا ؟ فيقول ما بربنا خفاء . فيقولون اقتلوه . فيقول بعضهم لبعض أليس قد نهاكم ربكم أن تقتلوا أحدا دونه . قال فينطلقون به إلى الدجال فإذا رآه المؤمن قال يا أيها الناس هذا الدجال الذي ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم . قال فيأمر الدجال به فيشبح . فيقول خذوه وشجوه فيوسع ظهره وبطنه ضربا . قال فيقول أو ما تؤمن بي ؟ قال فيقول أنت المسيح الكذاب . قال فيؤمر به فيؤشر بالمنشار من مفرقه حتى يفرق بين رجليه . قال ثم يمشي الدجال بين القطعتين ثم يقول له أتؤمن بي ؟ فيقول ما ازددت إلا بصيرة . قال ثم يقول يا أيها الناس إنه لا يفعل بعدي بأحد من الناس . قال فيأخذه الدجال ليذبحه فيجعل ما بين رقبته إلى ترقوته نحاسا فلا يستطيع إليه سبيلا قال فيأخذه بيديه ورجليه فيقذف به فيحسب الناس أنما قذفه إلى النار وإنما ألقي في الجنة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا أعظم الناس شهادة عند رب العالمين . رواه مسلم .

" اور ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دجال نکلے گا تو مسلمانوں میں سے ایک شخص ( اس کا شر رفع کرنے کے لئے ) اس کی طرف روانہ ہوگا ( راستہ میں ) اس شخص کو کچھ مسلح لوگ ملیں گے جو دجال کے محافظ ہوں گے، یہ لوگ اس مسلمان سے پوچھیں گے کہ کہاں جارہے ہو ؟ وہ کہے گا کہ میں اس شخص کی طرف جارہا ہوں جو وہاں (فتنہ وفساد پھیلانے کے لئے ) نکلا ہے یعنی دجال ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( یہ سن کر ) دجال کے محافظ اس سے کہیں گے کہ تو ہمارے رب ( دجال ) پر ایمان کیوں نہیں لے آتا وہ شخص جواب دے گا کہ ہمارے پروردگار کی صفات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں دجال کے آدمی ( یہ سن کر آپس میں کہیں گے کہ اس شخص کو مار ڈالو ( جو ہمارے رب پر ایمان لانے کے لئے تیار نہیں ہے ) لیکن بعض لوگ آپس ہی میں پھر یہ کہیں گے کہ کیا ہمارے رب دجال نے اس سے منع نہیں کیا کہ ہم کسی کو اس کے حکم کے بغیر نہ ماریں آخر کار وہ لوگ اس مسلمان شخص کو دجال کے پاس لے جائیں گے ) اور وہ علامات کے ذریعہ اس کو پہچان لے گا ) تو کہے گا کہ لوگو ! جان لو، یہ وہی دجال ہے جس کا ذکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اپنی احادیث کے ذریعہ ) فرمایا تھا ( کہ فلاں فلاں علامتوں کے ساتھ آخر زمانے میں نکلے گا ) آنحضرت نے فرمایا " دجال اس شخص کی بات سنتے ہی آگ بگولا ہو جائے گا اور اس کو چت لٹانے کا حکم دے گا ( اور بعض حضرات نے یہ ترجمہ کیا ہے کہ زمین پر پیٹ کے بل یعنی اوندھا لٹانے کا حکم دے گا جیسا کہ مجرم کو سزاء مارنے کے لئے اوندھا لٹا دیا جاتا ہے ) چنانچہ اس شخص کو چت لٹا دیا جائے گا کہ اس کی پیٹھ اور پیٹ پر پلپلا ہو جائے گا اور پھیل جائے گا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے بعد دجال کہے گا کہ کیا تو اب بھی مجھ پر ایمان نہیں لائے گا ؟ وہ شخص کہے گا کہ ( ہرگز نہیں ) تو جھوٹا ہے پھر (دجال کی طرف سے اس شخص کو چیرنے اور ٹکڑے ٹکڑے کر دینے ) کا حکم دیا جائے گا اور ( اس حکم کے مطالق ) اس کو آرے سے سر کی طرف سے چیرا جائے گا یہاں تک کہ اس کے دونوں ٹکڑوں کے درمیان سے اس کے دو ٹکڑے کر دئیے جائیں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دجال ( اپنے کارنامہ پر اتراتا ہوا ، ان دونوں ٹکڑوں کے درمیان ٹہلتا پھرے گا اور پھر کہے گا کہ کھڑا ہو جا، وہ مسلمان شخص ( زندہ ہو کر ) بالکل سیدھا کھڑا ہو جائے گا تب دجال کہے گا کہ اب تو مجھ پر ایمان لے آئے گا ؟ وہ شخص جواب دے گا کہ ( ہرگز نہیں ) اب تو میرا یقین اور پختہ ہو گیا اور میری بصیرت اور زیادہ بڑھ گئی ہے (یعنی تو نے جس طرح مجھے پہلے تو قتل کیا اور پھر دوبارہ زندہ کر دیا اس سے مجھے کامل یقین ہوگیا ہے تو جھوٹا دجال ہی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " اس کے بعد وہ مسلمان شخص ( وہاں موجود لوگوں کو مخاطب کر کے ) کہے گا کہ لوگو ! اچھی طرح جان لو ) اس دجال نے جو کچھ میرے ساتھ کیا ہے (یعنی پہلے قتل کرنا اور پھر دوبارہ زندہ کر دینا ) اب کسی دوسرے آدمی کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتا ۔ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر دجال اس شخص کو پکڑ کر ذبح کرنا چاہے گا مگر ہنسلی کی ہڈی تک اس کی گردن کو تانبے کا بنا دیا جائے گا ( یعنی اس کی پوری گردن تانبے کی طرح سخت اور ٹھوس ہو جائے گی تاکہ اس پر تلوار وغیرہ اثر انداز ہی نہ ہو سکے، شرح السنہ میں معمر کا یہ قول ہے کہ مجھ تک جو روایت پہنچی ہے اس میں یوں ہے کہ اس شخص کی گردن پر تانبے کا تختہ رکھدیا جائے گا ) جس کی وجہ سے وہ اس کو قتل نہیں کر سکے گا، اس کے بعد جھنجھلا کر ) اس شخص کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر پکڑ کر اس کو اٹھائے گا اور ( اپنی آگ میں ) پھینک دے گا ، لوگ تو یہی خیال کریں گے کہ اس کو آگ میں پھینکا گیا ہے لیکن حقیقت میں وہ جنت میں پھینکا گیا ہوگا ( یہ بیان کرنے کے بعد ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ شخص اللہ رب العلمین کے نزدیک شہادت کے اعتبار سے بہت بڑے درجہ کا حامل ہوگا ۔ " ( مسلم )

تشریح
مسلمانوں میں سے ایک شخص، کے بارے میں بعض حضرات کا کہنا ہے کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام ہوں گے ! اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں اور اس دنیا میں موجود ہیں ، تا ہم اس مسئلہ میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں ، چنانچہ فقہاء و محدثین کی اکثریت اور بعض صوفیا کا قول یہ ہے کہ وہ مرچکے ہیں ، جب کہ صوفیاء کی اکثریت اور بعض فقہا کا کہنا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور نووی نے کہا ہے کہ یہی بات صحیح ہے ۔
لفظ " مسالح " ( میم کے زبر اور لام کے زیر کے ساتھ ) اصل میں " مسلحۃ " کی جمع ہے جس کے لغوی معنی سرحد دیدبانی کی جگہ کے ہیں اور عرف عام میں اس کا اطلاق ان ہتھیار بند اور مسلح لوگوں پر ہوتا ہے جو اپنی سرحدوں اور آقاؤں کی حفاظت کرتے ہیں ، چنانچہ یہاں
یہی معنی مراد ہیں ۔
" ہمارے پروردگار کی صفات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں " کا مطلب یہ ہے کہ اس کے رب ہونے کی دلیلیں بالکل ظاہر اور واضح ہیں جیسے پیدا کرنا اور رزق دینا وغیرہ، نیز وہ تمام کمال کی صفات رکھتا ہے کہ ان میں کسی بھی طرح کے نقص اور عیب کا ذرہ برابر شائبہ تک نہیں جب کہ دجال میں نقص وعیب کی چیزیں ہیں اور اس کا ناقص وعیب دار ہونا بالکل ظاہر ہے ، لہٰذا جس ذات میں ربوبیت اور کمال کی واضح دلیلیں موجود ہوں اور اس کا شریک بندہ ناقص کیسے ہو سکتا ہے اور اس اعتبار سے رب ہونا صرف اسی ذات پاک کو سزاوار ہے نہ کہ اس کے علاوہ کسی اور کو ۔
فیشج فیقول خذوہ شجوہ فیوسع ظہرہ وبطنہ ضربا ۔ ( چنانچہ اس شخص کو چت لٹا دیا جائے گا الخ ) میں لفظ " یوسع " واو کے جزم اور سین کے تخفیف کے ساتھ ) وسع سے ہے اور بعض نسخوں میں اس لفظ کو واؤ کے زبر اور سین کی تشدید کے ساتھ " توسیع " سے مشتق ہونا صحیح قرار دیا گیا ہے اسی طرح " یشج " کا لفظ " تشییج " سے مجہول کا صیغہ ہے جس کے اصل معنی کسی چیز کو چوڑا کرنے کے ہیں، اسی مناسبت سے اس کا ترجمہ " چت یا پیٹ کے بل لٹانا " کیا گیا ہے، نیز لفظ " شجوہ " ( جیم کی تشدید کے ساتھ امر کا صیغہ ہے جس کے معنی سر کو زخمی کرنا ہیں، جیساکہ صحیح مسلم کی شرح میں کہا گیا ہے یہ قول زیادہ صحیح ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ جس طرح " یشج " کے لفظ " تشییج " سے مشتق کہا گیا ہے اس طرح " شجوہ " بھی اسی باب سے امر کا صیغہ ہے اور تیسرا قول یہ ہے کہ " یشج " اور " شجوہ " دونوں لفظ " شج " سے مشتق ہیں جو سر کirmanے زخم " کے معنی میں ہے ۔
" اس کے دونوں پیروں کے درمیان سے اس کے دو ٹکڑے کر دئیے جائیں گے " یعنی اس کو سر سے لے کر پیر تک چیر کر پورے جسم کے دو ٹکڑے کر دئیے جائیں گے ! واضح رہے کہ لفظ " فیوشر " کے بارے میں احتمال ہے کہ ہمزہ کے ساتھ ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ واؤ کے ساتھ ہو اسی طرح " میشار " کا لفظ ہمزہ کے ساتھ منقول ہے اور ی کے ساتھ بھی دونوں صورتوں میں اس کے معنی " آرہ " کے ہیں یعنی وہ آلہ جس کے ذریعہ کسی چیز کو چیر کر ٹکڑے ٹکڑے کیا جاتا ہے ، ویسے " منشار " یعنی نون کے ساتھ بھی نقل کیا گیا ہے ! لفظ مفرق کے معنی ہیں سر کا وہ حصہ جو بیچوں بیچ ہو جس کو " مانگ " کہتے ہیں ۔
" اب کسی دوسرے آدمی کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتا ۔ " یہ گویا اس بات کی اطلاع ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے اس ( دجال ) کو ڈھیل دینے کے لئے جو اتنی زبردست طاقت وقدرت عطا کر دی تھی کہ وہ جس کو چاہے مار دے اور پھر دوبارہ اس کو زندہ کر دے تو وہ طاقت وقدرت اس سے سلب کر لئی گئی ہے لہٰذا اب کسی کو اس سے ڈرنے اور خوف زدہ رہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
" لیکن حقیقت میں وہ جنت میں پھنکا گیا ہوگا " میں " جنت " سے مراد یا تو دنیاوی وجسمانی راحت وسکون کی جگہ ہے جیسے کوئی باغیچہ وآرامگاہ وغیرہ، یا یہ مراد ہے کہ دجال اس شخص کو اس آگ میں پھینکے گا جو وہ اپنے ساتھ لئے پھرے گا لیکن وہ آگ اس شخص کے لئے ٹھنڈی ہو جائے گی اور سلامتی کا باعث بن جائے گی جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے نمرود کی آگ ٹھنڈک وراحت پہنچانے کا ذریعہ بن گئی تھی، بہر صورت مطلب یہ ہے کہ دجال کے ہاتھوں اس شخص کی دوبارہ موت واقع نہیں ہوگی خواہ وہ کتنی ہی کوشش کرے ۔
" یہ شخص اللہ رب العلمین کے نزدیک شہادت کے اعتبار سے بہت بڑے درجہ کا حامل ہوگا " میں اس شخص کو شہید اس کی پہلی موت کے اعتبار سے فرمایا گیا ہے جو دجال کے ہاتھوں ( آرہ سے چیرے جانے کی صورت میں ) واقع ہوگی اگرچہ بعد میں وہ زندہ ہو جائے گا یا وہ اس اعتبار سے شہید ہوگا کہ دجال اس کو ذبح کرنے کا قصد کرے گا اگرچہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے گا ۔ نیز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ " شہادت " حق تعالیٰ کے نزدیک حاضر ہونا اور گواہی دینا مراد ہو ۔

یہ حدیث شیئر کریں