مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبوت کی علامتوں کا بیان ۔ حدیث 437

شق قمر کا معجزہ

راوی:

وعن ابن مسعود قال : انشق القمر على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم فرقتين : فرقة فوق الجبل وفرقة دونه . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " اشهدوا " . متفق عليه

اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چاند درمیان میں سے شق ہو کر اس طرح دو ٹکڑے ہو گیا کہ ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر کی جانب تھا اور دوسرا نیچے کے طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (کافروں کی طلب پر یہ معجزہ دکھا کر ان سے ) فرما یا کہ میری نبوت یا میرے معجزہ کی شہادت دو ۔" ( بخاری ومسلم )

تشریح
" شہادت دو" کہ ایک معنی بعض حضرات نے یہ لکھے ہیں کہ ۔" آؤ اس معجزہ کو دیکھو ۔ اس معنی کی صورت میں اشہدوا کو شہادت سے مشتق کہا جائے گا پہلے معنی کی صورت میں (جو ترجمہ میں بیان ہوئے ہیں اشہدوا کو شہود سے مشتق مانا جائے گا ۔"
شق القمر کا معجزہ : یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کے اشارہ پر چاند کے دو ٹکڑے ہو جانا، ایک حقیقی واقعہ ہے، جس کی صداقت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، اس واقعہ سے متعلق روایت کو صحابہ اور تابعین کی ایک بڑی جماعت نے بیان کیا ہے اور ان کے واسطہ سے بے شمار محدثین نے اس روایت کو نقل کیا ہے ۔علامہ ابن سبکی نے شرح مختصر ابن حاجب میں لکھا ہے کہ میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ شق قمر کی روایت متواتر ہے اور اس کو بخاری و مسلم نیز دوسرے بہت سے ائمہ حدیث نے اتنے زیادہ طرق سے نقل کیا ہے کہ اس میں کہیں سے بھی شک کا گزر نہیں ، علاوہ ازیں اس معجزہ کی صداقت کا سب سے بڑا ثبوت خود قرآن کریم ہے چنانچہ تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق و اجماع ہے کہ اس آیت کریمہ ۔
(اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ Ą ) 54۔ القمر : 2-1)
قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا اور اگر یہ لوگ (کافر ) کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو رو گردانی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے ۔"
میں وہی شق قمر مراد ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ کے طور پر واقع ہوا نہ کہ وہ انشقاق قمر مراد ہے جو قیامت کے دن واقع ہوگا ، اس کی واضح دلیل خود آیت کے الفاظ آیت (وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ) 54۔ القمر : 2) ہیں ۔ بہت سے بے دینوں اور فلسفیوں نے اس معجزہ کا انکار کیا ہے ، ان کے انکار کی بنیاد اس اعتقاد پر ہے کہ فلکیات میں خرق و التیام ممکن نہیں ہے، اس سلسلہ میں پہلی بات تو یہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہی فلکیات کا خلق اور قادر مطلق ہے ، تمام فلک اس کی قدرت کے مسخر اور کے حکم کے تابع ہیں ، اس کائنات میں جو کچھ ہم ، خواہ زمین ہو یا آسمان ، چاند ، ستارے ہوں یا سورج ، ان میں سے جس کو چاہے وہ توڑ پھوڑ کر ایک طرف کر سکتا ہے ، خود اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ قیامت کے دن وہ آسمان کو اس طرح لپیٹ دے گا جس طرح کاغذ کو لپیٹ دیا جاتا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ فلکیات میں خرق والتیام کے محال کا نظریہ جو اس وقت بھی بہت سے فلاسفہ کے نزدیک محل نظر تھا تحقیق و تجربہ کے بعد اب بالکل ہی باطل ہو چکا ہے اس دور کے انسان نے چاند پر پہنچ کر شق القمر کے معجزہ کو زبر دست تائید بھی پہنچائی ہے لہٰذا خرق والتیام کی بحث اٹھا کر اس معجزہ کے خلاف دلیل قائم کرنا بالکل بے معنی بات ہو گئی ہے ۔ منکرین صداقت ایک اعتراض اور کرتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ چاند میں اتنا زبردست تغیر ہو جانا کہ وہ ٹکڑوں میں بٹ گیا کوئی معملولی بات نہیں تھی اگر حقیقت میں ایسا ہوا تھا تو اس کا مشاہدہ صرف اہل مکہ تک محدود نہ رہتا بلکہ اس کرشمہ کو تمام اہل زمین دیکھتے اور بلا تفریق مذہب و ملت تمام مورخین تواتر کے ساتھ اس کا تذکوہ کرتے ، اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو اس معجزہ کا وقوع کچھ خاص لوگوں کے مطالبہ پر ہوا تھا اور انہیں کو یہ کرشمہ دکھانا اور ان کو لا جواب کرنا مقصود تھا ، علاوہ ازیں یہ رات کے وقت کا واقعہ ہے ، جو ایک لمحہ کے لئے تھا ظاہر ہے کہ ایسے میں جب کہ اکثر لوگ محو خواب ہوں گے اس لمحاتی کرشمہ کا عام مشاہدہ کیسے ممکن تھا دوسرے یہ کہ اختلاف مطالع کی بناء پر یہ ممکن ہی نہیں ہو سکتا کہ چاند ایک وقت میں ایک ہی مطلع پر دنیا کے تمام خطوں میں نظر آئے اس لئے معجزہ کے وقوع کے وقت کا چاند دنیا کے تمام خطوں میں سے کچھ کو نظر آیا اور کچھ کو نظر نہیں ، جیسا کہ جب چاند گرہن ہوتا ہے تو اس وقت کچھ خطوں میں نظر آتا ہے اور کچھ خطوں میں نظر نہیں آتا ، علاوہ ازیں بعض روایتوں میں آتا ہے اس دن عرب کے باہر کے جو لوگ مکہ مکرمہ یا اس کے کسی قریبی علاقوں میں آئے ہوئے تھے انہوں نے اپنے شہروں اور علاقوں میں پہنچ کر اس واقعہ کی اطلاع دی ، جہاں تک تاریخ میں اس عجیب و غریب واقعہ (شق قمر ) کے ذکر کا تعلق ہے تو اسلامی تاریخ و سیر کی کتابوں میں اس واقعہ کا ذکر تواتر کے ساتھ موجود ہی ہے ، گو اسلام مخالف اور دین بیزار لوگ اس سے انکار کریں ، لیکن اسلامی تاریخ کے علاوہ بعض دوسری قوموں کے تذکرہ اور احوال میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے ، جیسے ہندوستان کے علاقہ ملیبار یا مالوہ کے شہر وہار کے راجہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ تو صرف اس واقعہ کے مشاہدہ یا تصدیق کی وجہ ہی سے مشرف باسلام ہو گئے تھے

یہ حدیث شیئر کریں