مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبوت کی علامتوں کا بیان ۔ حدیث 439

ایک پیش گوئی جو حرف بحرف پوری ہوئی ۔

راوی:

وعن عدي بن حاتم قال : بينا أنا عند النبي صلى الله عليه و سلم إذا أتاه رجل فشكا إليه الفاقة ثم أتاه الآخر فشكا إليه قطع السبيل . فقال : " يا عدي هل رأيت الحيرة ؟ فإن طالت بك حياة فلترين الظعينة ترتحل من الحيرة حتى تطوف بالكعبة لا تخاف أحدا إلا الله ولئن طالت بك حياة لتفتحن كنوز كسرى ولئن طالت بك حياة لترين الرجل يخرج ملء كفه من ذهب أو فضة يطلب من يقبله فلا يجد أحدا يقبله منه وليلقين الله أحدكم يوم يلقاه وليس بينه وبينه ترجمان يترجم له فليقولن : ألم أبعث إليك رسولا فليبلغك ؟ فيقول : بلى . فيقول : ألم أعطك مالا وأفضل عليك ؟ فيقول : بلى فينظر عن يمينه فلا يرى إلا جهنم وينظر عن يساره فلا يرى إلا جهنم اتقوا النار ولو بشق تمرة فمن لم يجد فبكلمة طيبة " قال عدي : فرأيت الظعينة ترتحل من الحيرة حتى تطوف بالكعبة لا تخاف إلا الله وكنت فيمن افتتح كنوز كسرى بن هرمز ولئن طالت بكم حياة لترون ما قال النبي أبو القاسم صلى الله عليه و سلم : " يخرج ملء كفيه " . رواه البخاري

اور حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا کہ اچانک ایک شخص آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے فقر و فاقہ اور افلاس کا شکوہ کرنے لگا ، پھر ایک اور شخص آیا ، اس نے راہزنی کی شکایت کی ( کہ راستہ میں کچھ ڈاکوؤں اور قزاقوں نے مجھے لوٹ لیا ہے ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان دونوں کی باتیں سننے کے بعد مجھ سے ) فرمایا : عدی ! تم نے تو حیرہ دیکھا ہوگا ۔ ؟ اگر تمہاری عمر بڑی ہوئی تو تم یقینا دیکھو گے کہ ایک تنہا اونٹنی پر سوار ہو کر حیرہ سے چلے گی اور (مکہ پہنچ کر ) کعبہ کا طواف کرے گی اور سوائے اللہ تعالیٰ کے اس کو کسی (لیڑے اور رہزن کا خوف نہیں ہوگا ، اگر تم زیادہ دنوں تک زندہ رہے تو (دیکھو گے کہ ) کسری (فارس کے بادشاہ ) کے خزانے (مسلمانوں کے لئے کھول دئیے جائیں گے (جو غنیمت کے طور پر ہاتھ لگیں کے اور تمام مسلمانوں میں تقسیم ہوں گے ) اور تمہاری عمر زیادہ ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ایک شخص مٹھی بھر سونا یا چاندی (خیرات کرنے کو ) نکلے گا ، اور قبول کرنے والے (یعنی کسی محتاج و مفلس ) کو ڈھونڈتا پھرے گا مگر اس کو ایسا شخص نہیں ملے گا جو اس سے خیرات کا مال لے لے ۔ اور (یاد رکھو) قیامت کے دن تم میں سے ایک شخص اللہ کے حضور اس طرح پیش ہوگا کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا جو اس کا حال بیان کرے ، پھر اللہ تعالیٰ اس سے سوال کرے گا کہ کیا میں نے تجھ کو دین کے احکام پہنچانے اور قیامت کے دن کی خبر دینے کے لئے رسول نہیں بھیجا تھا؟ وہ شخص کہے گا کہ بیشک آپ نے رسول بھیجا تھا ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ میں نے تجھ کو مال وزر عطا نہیں کیا تھا اور کیا میں نے تجھ پر فضل و احسان نہیں کیا تھا ؟ وہ کہے گا بیشک آپ نے مجھ کو مال بھی عطاء کیا تھا اور مجھ پر فضل و احسان بھی فرمایا تھا ، اس کے بعد وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو اس کو دوزخ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا (جس کو اس نے ترک طاعت و عبادت کے سبب اپنے لئے واجب کر رکھا ہوگا ) پھر وہ اپنے بائیں طرف دیکھے گا تو اس کو دوزخ کے علاوہ کچھ نہیں نظر نہیں آئے گا (جس کو اس نے ارتکاب معصیت کے سبب اپنے اوپر واجب کر رکھا ہوگا) پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ لوگو! دوزخ کی آگ سے (خیرات کے ذریعہ ) اپنے آپ کو بچاؤ ۔ اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی خیرات کرنے کی استطاعت رکھتے ہو ، اور اگر کوئی شخص (اللہ کے نام پر خرچ کرنے کے لئے کھجور کا ایک ٹکڑا بھی نہ رکھتا ہو تو نرمی اور خوش خلقی کے ساتھ بات کر کے (خود کو دوزخ کی آگ سے ) بچائے ۔ حضرت عدی ابن حاتم نے (یہ روایت بیان کرنے کے بعد) کہا (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی کے مطابق ) میں نے یہ تو دیکھ لیا کہ اونٹنی سوار عورت خانہ کعبہ کا طواف کرنے کے لئے حیرہ سے تنہا سفر کرتی ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے ڈر نہیں لگتا اور میں خود ان لوگوں میں شامل تھا ۔ جہنوں نے کسری ابن ہرمز بن نوشیروان (فارس کے بادشاہ ) کے خزانوں کو کھولا ، اب اگر تو زیادہ دونوں زندہ رہے تو نبی کریم ابوالقاسم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اس پیش گوئی کو بھی حرف بحرف پورا ہوتے دیکھ لو گے کہ ایک شخص مٹھی بھر کر ( سونا چاندی خیرات کرنے کو نکلے گا ) اور کوئی شخص اس کو لینے والا نہیں ملے گا ۔" (بخاری)

تشریح
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی پیش گوئی فرمائی، ایک تو یہ کہ ملک عرب میں مکمل امن و امان ہو جائے گا ،
ڈکیتی اور رہزنی جیسے جرائم جو عام زندگی خوف ہر اس میں مبتلا کر دیتے ہیں اس طرح ختم ہو جائیں گے کہ حیرہ جو کوفہ کے پاس ایک پرانا شہر ہے اور مکہ معظمہ سے بہت دور ہے ، وہاں سے ایک عورت زیارت بیت اللہ اور طواف کعبہ کے لئے مکہ معظمہ تک اونٹنی یا کسی بھی سواری پر تنہا سفر کرے گی اور اس کی جان و مال کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا ۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ مجاہدین اسلام کے ہاتھوں فارس ( ایران ) کی عظیم سلطنت فتح کرائے گا اور وہاں کے بادشاہ کسری کے خزانوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہو جائے گا ، اور تیسرے یہ کہ اسلامی حدود سلطنت میں اقتصادی خوش حالی اور مال و دولت کی فراوانی سے چند لوگ یا کوئی خاص طبقہ نہیں بلکہ تمام لوگ اس طرح بہرہ مند ہوں گے کہ زکوۃ خیرات نکالنے والا اپنے ہاتھ میں سونا چاندی اور روپیہ پیسہ لئے پھرے گا مگر ڈھونڈنے سے بھی کوئی صدقہ لینے والا اس کو نہیں ملے گا کیونکہ پوری اسلامی قلم رو میں جب کوئی بھوکا محتاج ہی نہیں ہوگا تو صدقہ خیرات کا سونا چاندی لینے والا کون ہوگا ۔ ان تینوں پیش گوئیوں میں سے دو تو پوری ہو گئیں اور ان کا مشاہدہ خود حدیث کے روای حضرت عدی ابن حاتم نے کیا اور پیش گوئی کے بارے میں بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ آخر زمانہ میں حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کے بعد پوری ہوگی کہ ان کے عہد سلطنت میں کوئی شخص بھوکا محتاج نہیں ہوگا اور عام خوشحالی کا یہ عالم ہوگا کہ ڈھونڈنے پر بھی خیرات کوئی صدقہ خیرات لینے والا نہیں ملے گا ۔ اس کا ذکر اس حدیث میں گزر چکا ہے جو عیسی علیہ السلام کے نزول کے باب میں پیچھے نقل ہوئی ہے ۔ اور بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ تیسری پیش گوئی بھی حضرت ابن عمر ابن عبد العزیز کی خلافت کے زمانے میں پوری ہو چکی ہے بیہقی نے اس قول کو جزم کے ساتھ اختیار کیا ہے ، چنانچہ ان کے عہد میں عام لوگوں کی اقتصادی حالت اتنی بہتر تھی کہ صدقہ و خیرات کا مال لینے والا کوئی نہیں ملتا تھا ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پہلی پیش گوئی فرمائی وہ دراصل اس شخص کے جواب میں تھی جس نے راہزنی کی شکایت کی تھی اور دوسری پیش گوئی اس شخص کے جواب میں تھی جس نے اپنے فقر و افلاس کی شکایت کی تھی ، روئے سخن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عدی ابن حاتم کی طرف کر رکھا جو اس وقت مجلس شریف میں حاضر تھے اور خطاب عام تھا !مقصد یہ تھا کہ ان باتوں کی بشارت تمام صحابہ سن لیں اور اس ضمن میں ان دونوں شکایت کنندہ کو جواب بھی حاصل ہو جائے جس سے ان کو تسلی ہو۔
یہ بشارت دینے کے بعد کہ مسلمانوں پر معاشی خوشحالی اور مالی وسعت کا زمانہ جلد آنے والا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح کر دینا بھی ضروری سمجھا کہ مال و دولت کی فراوانی چونکہ عام طور پر انسان کو دنیا کے عیش و عشرت میں ڈال کر آخرت سے غافل کر دیتی ہے اس لئے اہل ایمان کو چاہے اس فراخی و تونگری کے زمانہ میں یہ بات فراموش نہ کریں کہ دنیا میں مال و دولت کی آسائش و راحت دراصل میں آخرت میں تنگی و سختی اور ندامت کا باعث ہے ، ہاں اگر مال و دولت کو دنیاوی آسائش و راحت کے ساتھ مصارف خیر میں خرچ کر کے آخرت کا توشہ بھی بنا لینے کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہو جائے تو دنیا و آخرت دونوں جگہ آسائش ہی آسائش ہو گی !حاصل یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس شان نبوت کے تحت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھلائیوں کی بشارت دینے والے بھی ہیں اور خرابیوں سے ڈرانے والے بھی ہیں مسلمانوں کو وسعت رزق اور فراغت معیشت کی بشارت بھی عطا فرمائی اور قیامت کے دن کی سختی و شدت اور ہولناکی سے ڈرایا بھی " ترجمان " اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی بات کو ایک زبان سے دوسری زبان میں بیان کرے ، اس کو مترجم کہا جاتا ہے پس ۔" اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا ۔" کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ اور اس کے بندے کے درمیان کسی مترجم وغیرہ کا واسطہ نہیں ہوگا پروردگار کے حضور بندہ کی براہ راست پیشی اور گفتگو ہو گی ۔
" کیا میں نے تجھ کو مال و زر عطا نہیں کیا تھا ؟ یہ استفہام اقراری ہے یعنی !میں نے تجھ کو مال و دولت سے سرفراز کیا ، تجھ پر اپنا فضل و انعام کیا، اس مال و دولت کو خرچ کرنے اس سے فائدہ اٹھانے اور مستحق و ضرورت مند لوگوں پر اس کو صرف کرنے کی قدرت عطا کی ۔
دائیں اور بائیں دوزخ کو دیکھنے کا ذکر کرنا دراصل اس بات سے کنایہ ہے کہ اس دن بندہ اپنے کو چاروں طرف سے دوزخ کے درمیان گھرا ہوا دیکھے گا ، اور اس ہولناک جگہ سے گو خلاصی کا راستہ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا کہ اس کو دوزخ کے اوپر (پل صراط ) سے گزرنا پڑے گا ، اگر دنیا میں ایمان و تقوی کی زندگی اختیار کی ہوگی اور اللہ کا فضل شامل رہا تو اس کے اوپر سے گزر کر جنت میں پہنچ جائے گا ورنہ دوزخ میں گر پڑے گا ۔ ارشاد ربانی ہے
ا یت (وان منکم الا واردھا کان علی ربک حتما مقضیا ثم ننجی الذین اتقوا ۔)
اور تم میں ایسا کوئی شخص نہیں جس کو اس (دوزخ ) کے اوپر سے گزرنا نہ پڑے گا یہ تمہارے رب کا حتمی فیصلہ ہے ، پھر ہم پرہیز گاروں کو نجات دیں گے ۔"
اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے آپ کو دوزخ سے بچاؤ اور اس کا ایک بہترین طریقہ صدقہ خیرات بھی ہے جس قدر مالی وسعت ہو، جتنی ہمت ہو اس کے مطابق غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مالی مدد کر کے اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنا چاہیے اگر کوئی سائل تمہارے سامنے دست سوال دراز کرے تو تمہیں جو کچھ میسر ہو اس کو دے دو ، یہاں تک کہ تم کھجور کے ایک ٹکڑے کے برابر کوئی معمولی چیز دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں دے سکتے تو وہی معمولی چیز دے کر اس کا سوال پورا کرو ، اور اگر سرے سے کچھ بھی دینے کی استطاعت نہیں رکھتے تو کم سے کم یہ کرو کہ اپنے کھرے اور بھدے جواب کے ذریعہ اس کی دل شکنی کرنے کی بجائے نہایت نرمی و ملائمت کے ساتھ اس کے سامنے اپنا عذر بیان کرو اور ایسے الفاظ و اسلوب میں اس کو جواب دو کہ وہ تمہارے برتاؤ ہی سے خوش ہو جائے ، بشرطیکہ اس میں دین کی مداہنت نہ ہو،۔

یہ حدیث شیئر کریں