مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبوت کی علامتوں کا بیان ۔ حدیث 442

زبان رسالت کا اعجاز

راوی:

وعن ابن عباس قال : إن ضمادا قدم مكة وكان من أزد شنوءة وكان يرقي من هذا الريح فسمع سفهاء أهل مكة يقولون : إن محمدا مجنون . فقال : لو أني رأيت هذا الرجل لعل الله يشفيه على يدي . قال : فلقيه . فقال : يا محمد إني ارقي من هذا الريح فهل لك ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن الحمد لله نحمده ونستعينه من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله أما بعد " فقال : أعد علي كلماتك هؤلاء فأعادهن عليه رسول الله صلى الله عليه و سلم ثلاث مرات فقال : لقد سمعت قول الكهنة وقول السحرة وقول الشعراء فما سمعت مثل كلماتك هؤلاء . ولقد بلغن قاموس البحر هات يدك أبايعك على الإسلام قال : فبايعه . رواه مسلم
وفي بعض نسخ " المصابيح " : بلغنا ناعوس البحر
وذكر حديثا أبي هريرة وجابر بن سمرة " يهلك كسرى " والآخر " ليفتحن عصابة " في باب " الملاحم "
وهذا الباب خال عن : الفصل الثاني

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ازدشنوہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص جس کا نام ضماد تھا (اسلام کے ابتدائی زمانہ میں ) مکہ آیا وہ ہوا (یعنی آسیب و جن ) اتارنے کے لئے جھاڑ پھونک کیا کرتا تھا ، جب اس نے مکہ کے بیوقوفوں کی زبان سے یہ سنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دیوانہ ہو گیا ہے تو اس نے کہا کہ اگر میں اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیکھوں (تو علاج کر دوں) شاید اللہ تعالیٰ اس کو میرے علاج سے ٹھیک کر دے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ضماد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں جھاڑ پھونک کے ذریعہ آسیب و جن دفع کرتا ہوں ، اگر تو چاہو تو میں اپنی جھاڑ پھونک کے ذریعہ تمہارا علاج کروں؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا : تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ہم اسی کی حمد و ثنا کرتے ہیں ، (اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں ) اور اسی سے (ذکر و طاعت اور عبادت کی توفیق اور ) مدد چاہتے ہیں ، وہ جس کو سیدھا راستہ دکھا دے (اور مقصد یاب کرے ) اس کو کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جس کو وہ گمراہ کر دے اس کو کوئی ہدایت نہیں کر سکتا اور منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ یکتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، بعد ازاں ۔ ضماد (یہاں تک سننے کے بعد ) بیساختہ بولا کہ ان جملوں کو ایک مرتبہ پھر میرے سامنے ارشاد فرمائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جملوں کو پھر ارشاد فرمایا اور تین بار ارشاد فرمایا ۔ ضماد نے کہا : میں نے کاہنوں کے اقوال سنے ہیں میں نے ساحروں کے کلمات سنے ہیں میں نے شاعروں کے اشعار سنے ہیں ، لیکن (خدا کی قسم ) آج تک میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کلمات واقوال کے مانند کوئی کلام نہیں سنا ، حقیقت تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات (فصاحت وبلاغت اور تاثیر کے اعتبار سے ) دریائے علم و کلام کی انتہائی گہرائیوں تک پہنچے ہوئے ہیں ، لائیے اپنا ہاتھ بڑھائیے ، میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر ) اسلام کی بیعت کرتا ہوں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ضماد نے (اسی وقت ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اور مسلمان ہو گیا ۔ (مسلم )

تشریح
مصابیح کے بعض نسخوں میں ( بلغن کی جگہ ) بلغنا ہے اور (قاموس البحر کی جگہ ) ناعوس البحر ہے ۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت یہلک کسری الخ اور حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت لتفتحن عصابۃ الخ باب الملاحم میں نقل کی جا چکی ہیں ۔

تشریح
ضماد " ویسے تو ض کے زیر اور آخر میں د کے ساتھ (ضماد ) ہے لیکن بعض حضرات نے اس نام کو آخر میں م کے ساتھ یعنی ضمام نقل کیا ہے ۔شنوۃ یمن کے ایک بہت بڑے قبیلہ کا نام ہے اور ازد اسی قبیلہ کی ایک شاخ کو کہتے ہیں ۔ ضماد اپنے وقت کا ایک بڑا طبیب بھی تھا فسوں گر بھی ، علم کے میدان سے اچھا خاصا تعلق رکھتا تھا ۔عملیات یعنی جھاڑ پھونک اس کا خاص فن اور پیشہ تھا ، زمانہ نبوت سے پہلے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شناسائی تھی، اسی لئے جب اعلان نبوت کے بعد وہ مکہ آیا اور بد باطن مشرکین مکہ کے عناد آمیز اور شرانگیز پروپیگنڈہ کے ذریعہ اس تک یہ بات پہنچی کہ (نعوذ باللہ ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر آسیب کا اثر ہے یا ان پر دیوانگی کا مرض غالب آ گیا ہے جس کی وجہ سے وہ بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں ، تو اس نے اپنے پچھلے تعلق کی بنا پر از خود اور بزعم خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا علاج کرنے کا ارادہ ظاہر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گیا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سن کر یہ مناسب سمجھا کہ مخالفین اسلام کے بے سروپا پروپیگنڈہ کے زیر اثر اس نے جو رائے قائم کی ہے اس کی تردید براہ راست نہ کی جائے بلکہ اس کے سامنے اللہ کا پیغام اور دین کی بات اس انداز اور پیرایہ میں رکھی جائے جس سے خود جان جائے کہ جس شخض کو بے وقوف لوگ دیوانہ یا آسیب زدہ کہتے ہیں وہ درحقیقت کیا حیثیت رکھتا ہے اور عقل و دانائی کے کس مقام پر فائز ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سامنے پند و نصیحت پر مشتمل خطبہ ارشاد کرنے کے لئے ابھی حمد و ثنا کے کلمات اور تمہدی جملے ہی ارشاد فرماتے تھے اور اما بعد (بعد ازاں ) کہہ کر اصل خطبہ شروع کرنا چاہتے تھے کہ زبان رسالت کے اعجاز نے ضماد کو آگے کچھ اور سننے کی ضرورت ہی باقی نہ رہنے دی اس کو خطبہ کے ان تمہیدی جملوں ہی سے اپنے دل و دماغ کی دنیا بدلتی محسوس ہونے لگی ، اس نے درخواست کر کے بار بار ان الفاظ کو زبان رسالت سے سنا اور جب اس کے دل و دماغ نے گواہی دے دی کہ یہ شخص نہ دیوانہ ہے اور نہ آسیب و جن کے زیر اثر بلکہ حقیقت میں اللہ کا رسول اور پیغمبر ہے اور اس کے بارے میں مخالفین و معاندین کا جو گمراہ کن پروپیگنڈہ ہے اس کا اصل مقصد لوگوں کو اس شخص سے اور اس کی سچی باتوں سے دور رکھنا ہے تو اس نے فورا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کر لی اور مسلمان ہو گیا ، اس طرح ضماد ان خوش نصیب صحابہ میں سے جنہیں ابتدائے اسلام ہی میں حلقہ بگوش دین ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔ رضی اللہ علیہ ۔
" قاموس البحر " میں اصل لفظ " قاموس " ہے یا ناعوس " اس کے متعلق شارح مسلم امام نووی نے لکھا ہے کہ ہم نے اس لفظ کو دونوں طرح یعنی ناعوس بھی نقل کیا ہے اور قاموس ، بھی ہمارے یہاں صحیح مسلم کے جو نسخے پائے جاتے ہیں اس میں ناعوس " ہی کا لفظ ہے ، لیکن صحیح مسلم کے علاوہ دوسری کتابوں کی مشہور روایتوں میں لفظ " قاموس " لکھا ہے ۔ اور قاضی عیاض نے لکھا ہے کہ بعض حضرات نے " ناعوس " کا لفظ نقل کیا ہے اور ہمارے شیخ ابوالحسن نے کہا ہے کہ " ناعوس " کے وہ معنی ہیں جو " قاموس " کے ہیں ۔ لیکن تورپشتی نے کہا ہم کہ (صحیح لفظ قاموس " ہی ہے ) ناعوس کا لفظ خطاء و تصحیف اور کسی راوی کا وہم ہے ویسے یہ ذکر کر دینا بھی ضروری ہے کہ بعض حضرات کے نزدیک یہ لفظ " قاموس " بھی منقول ہے ، نیز لغت کی مشہور کتابوں میں ، ناعوس ، کا لفظ نہیں ملتا ۔

یہ حدیث شیئر کریں