مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معراج کا بیان ۔ حدیث 446

واقعہ معراج کا ذکر

راوی:

" دودھ فطرت ہے الخ " فطرت دین سے مراد دین اسلام ہے جس کو حق تعالیٰ نے ہر انسان کی پیدائش وخلقت کی بنیاد ہے ۔ دودھ اور فطرت یعنی دین اسلام میں مماثلت ومناسبت یہ ہے کہ جس طرح دین اسلام انسان کی رواحانی اور اعتقادی تخلیق کی خشت اول ہے اسی طرح دودھ انسان کی جسمانی پرورش اور اٹھان کا بنیادی عنصر ہے ، یہ دودھ ہی ہوتا ہے جس سے آدمی کی پیدائش ہوتے ہی پرورش شروع ہو جاتی ہے ، اور پھر دودھ میں جو فطری خوبیاں ، لطافت وپاکیزگی ، شیرین ومنفعت اور خوشگواری ہے ، اس سے دین فطرت یعنی اسلام کو بہت مناسبت حاصل ہے ، اسی لئے عالم بالا میں دین اور علم کی مثال دودھ کو قرار دیا گیا ہے ، اور علماء کہتے ہیں اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ وہ دودھ پی رہا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہوگی کہ اس شخص کو دین اور علم سے بہت زیادہ حصہ اور بے شمار فوائد حاصل ہوں گے ۔
" تم اور تماری امت کے لوگ اس فطرت پر رہیں گے ۔ " یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف سے بشارت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ دودھ کے پیالہ کو اختیار فرمایا اس لئے ثابت ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ دین اور علم کی راہ پر گامزن رہیں گے دودھ کے مقابلہ پر شراب ہے ، جو ہر برائی کی جڑ بتائی گئی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ترک کر کے گویا اپنی امت کے لوگوں کو بالعموم برائی کے راستہ پر جانے سے روک دیا ہے ، چنانچہ ایک حدیث میں یہ منقول ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہ بھی کہا تھا : اگر آپ شر اب کا پیالہ لے لیتے تو پھر آپ کی امت فتنہ وفساد یعنی تمام خرابیوں کی جڑ پڑ جاتی واضح رہے کہ ( معراج کا واقعہ ) جس زمانہ کا ہے اس وقت شراب پینا مباح تھا ، خصوصا شراب جنت ( جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس موقع پر پیش کی گئی، کی حیثیت دوسری تھی لیکن اس کے باوجود عالم بالا میں جس چیز کو برائی اور خرابی کی جڑ قرار دیا گیا وہ شراب ہی ہے ۔ اب رہ گئی شہد کی بات ، تو اگرچہ شہد بھی ایک لطیف اور پاکیزہ چیز ہے اور اس کو شفا کا ذریعہ بھی بتایا گیا ہے لیکن اس کی لطافت وپاکیزگی اور خوشگواری چونکہ دودھ سے بڑھ کر نہیں، بلکہ اس سے کم ہی ہے اور اس کی حیثیت بھی دودھ کی بہ نسبت غیر اہم ہے ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کے مقابلہ پر شہد کو بھی ترجیع نہیں دی ۔ ویسے آگے جو حدیث آ رہی ہے اس میں شہد کا ذکر بھی نہیں ہے ، صرف دودھ اور شراب کے پیالوں کا ذکر ہے ۔ نیز اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ چیزوں کے پیالے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس وقت پیش کئے گئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سدرۃ المنتہی کے پاس تھے جب کہ آگے آنے والی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ پیالے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیت المقدس میں پیش کئے گئے ، لہذا علماء نے لکھا ہے کہ یہ پیالے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو مرتبہ پیش کئے گئے تھے ، ایک مرتبہ مسجد اقصی میں نماز سے فارغ ہونے کے بعد ، اس وقت صرف دو پیالے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے یعنی ایک دودھ کا اور ایک شراب کا ، جیسا کہ اگلی حدیث میں ذکر ہے اور دوسری مرتبہ آسمان پر ( سدرۃ المنتہی کے پاس ) تین پیالے پیش کئے گئے جن میں سے ایک دودھ کا تھا ، ایک میں شہد تھا اور ایک میں شراب تھی ۔
" تم پھر پروردگار کے پاس جاؤ اور اپنی امت کے لئے ( پانچ نمازوں میں بھی ) تخفیف کی درخواست کرو۔ " کے تحت خطابی نے کہا : حضرت موسی علیہ السلام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باربار اللہ تعالیٰ کے پاس بھیجنا اور ان کے مشورہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ سے نمازوں کی تعداد میں تخفیف کی درخواست کرنا اس بات کی علامت ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کو پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نمازوں کی فرضیت کا جو ابتدائی حکم صادر ہوا ہے وہ وجوب قطعی کے طور پر نہیں ہے ، اس میں تبدیلی کی گنجائش ہے ۔ اگر حضرت موسی علیہ السلام کو یہ بات معلوم نہ ہوتی تو وہ بار بار تخفیف کی درخواست کا مشورہ نہ دیتے ، نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بار بار درخواست پیش کرنا اور ہر مرتبہ اس درخواست کا منظور ہونا بھی اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پہلا حکم قطعًا وجوب کے طور پر نہیں تھا کیونکہ جو حکم وجوب قطعی کے طور پر جاری ہوتا ہے اس میں تخفیف کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ ملا علی قاری نے خطابی کے اس قول کو طیبی کے حوالہ سے نقل کرنے کے بعد اپنی طرف سے جو کچھ لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ان کے نزدیک خطابی کی بات وزن دار نہیں ہے ، ان کا کہنا ہے کہ تخفیف کی درخواست کرنا اصل میں علامت ہی اس بات کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم وجوب کے طور پر تھا ، کیونکہ جو چیز واجب نہ ہو اس میں تخفیف کی درخواست کی ضرورت پیش نہیں آتی، لہٰذا اس سلسلہ میں صحیح بات وہی ہے جو بعض حضرات نے نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے پچاس نمازیں ہی فرش کی تھیں پھر اپنے بندوں کے حال پر رحم کرتے ہوئے تخفیف کی درخواست قبول فرمائی اور پچاس نمازوں کے حکم کو منسوخ کر کے پانچ نمازوں کا حکم جاری ونافذ فرمایا جیسا کہ اور بعض احکام میں بھی تبدیلی ومنسوخی کا عمل ہوا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں