مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معراج کا بیان ۔ حدیث 450

قریش کے سوالات پر بیت المقدس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سامنے لایا گیا

راوی:

وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لقد رأيتني في الحجر وقريش تسألني عن مسراي فسألتني عن أشياء من بيت المقدس لم أثبتها فكربت كربا ما كربت مثله فرفعه الله لي أنظر إليه ما يسألوني عن شيء إلا أنبأتهم وقد رأيتني في جماعة من الأنبياء فإذا موسى قائم يصلي . فإذا رجل ضرب جعد كأنه أزد شنوءة وإذا عيسى قائم يصلي أقرب الناس به شبها عروة بن مسعود الثقفي فإذا إبراهيم قائم يصلي أشبه الناس به صاحبكم – يعني نفسه – فحانت الصلاة فأممتهم فلما فرغت من الصلاة قال لي قائل : يا محمد هذا مالك خازن النار فسلم عليه فالتفت إليه فبدأني بالسلام " . رواه مسلم
وهذا الباب خال عن : الفصل الثاني

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے اپنے آپ کو حجر ( حطیم ) میں دیکھا ، اس حال میں کہ ( میں کھڑا تھا ) اور قریش مکہ مجھ سے میرے شب معراج کے سفر کے بارے میں سوالات کر رہے تھے اور بیت المقدس کی وہ چیزیں اور نشانیاں دریافت کر رہے تھے جو مجھ کو اس وقت یاد نہیں رہی تھیں ۔ اس بات سے ( کہ قریش کی پوچھی ہوئی باتوں کا جواب نہ دے پایا تو یہ سب لوگ میرے بیت المقدس کے سفر اور معراج کے واقعہ کو ایک جھوٹا دعویٰ سمجھیں گے ، میں اتنا سخت پریشان اور غمگین ہوگیا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا پریشان اور غمگین نہیں ہوا تھا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی اور ، بیت المقدس کو بلند کر دیا جو میری نظروں کے سامنے آگیا ( یعنی قادر مطلق نے میرے اور بیت المقدس کے درمیان سارے فاصلے سمیٹ دئیے اور سارے حجابات اٹھا دئیے ، جس سے بیت المقدس کی پوری عمارت اپنے گرد وپیش کے ساتھ میری نظروں کے سامنے آگئی اور میں اس قابل ہوگیا کہ قریش مکہ بیت المقدس کی جس چیز اور علامت کے بارے میں پوچھیں ، میں اس کو دیکھ دیکھ کر بتاتا رہوں ) چنانچہ وہ مجھ سے ( بیت المقدس کے بارے میں ) جو کچھ پوچھتے میں ان کو ( سامنے دیکھ کر بتادیتا ) اور یہ حقیقت ہے کہ ( اسراء ومعراج کی رات میں ) میں نے اپنے آپ کو انبیاء علیہم السلام کے درمیان دیکھا ، میں نے ( اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا جو کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک میانہ قد مرد نظر آئے جیسے وہ ( قبیلہ ) شنوہ سے تعلق رکھنے والے شخص عروہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ثقفی ہیں ، پھر میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی دیکھا جو کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے ۔ ان سے سب سے زیادہ مشابہت جو شخص رکھتا ہے وہ تمہارا دوست ہے ، " (تمہارے دوست " سے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات تھی ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ) جب نماز کا وقت آیا تو میں ان سب ( انبیاء علیہم السلام) کا امام بنا ، اور جب میں نماز سے فارغ ہوا تو ( آسمان پر جانے سے پہلے یا آسمان پر پہنچنے اور بارگاہ رب العزت میں حاضری کے بعد ) ایک کہنے والے نے مخاطب کر کے کہا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ دوزخ کا داروغہ موجود ہے ( اپنے پروردگار کی قہاریت کی تعظیم کے لئے یا جیسا کہ ابرار وصالحین کے آداب میں سے ہے از راہ تواضع وانکساری ، اس کو سلام کرو ! چنانچہ میں ( سلام کرنے کے لئے ) اس ( داروغہ دوزخ ) کی طرف متوجہ ہوا ، لیکن سلام میں پہل اسی نے کی ۔ " ( مسلم )

تشریح :
میں نے اپنے آپ کو ابنیاء علیہم السلام کے درمیان دیکھا ۔ " یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کا ذکر کیا ہے جب شب معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے روانہ ہوئے اور آسمانوں پر جانے سے پہلے بیت المقدس میں تشریف لائے ۔ لہٰذا علماء ومحققین کا متفقہ قول ہے کہ یہ دیکھنا اس دیکھنے کے علاوہ ہے جو آسمانوں میں تھا ۔ مطلب یہ کہ ایک دفعہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کرام علیہم السلام کو مسجد اقصیٰ میں اس وقت دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمانوں پر جانے سے پہلے بیت المقدس میں تشریف لائے اور دوبارہ ان انبیاء علیہم السلام کو آسمانوں میں دیکھا اور ان سے ملاقات کی ۔ نیز بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ان انبیاء علیہم السام کو آسمانوں میں دیکھنا ان کو روحوں کے دیکھنے پر محمول ہے یعنی وہ انبیاء علیہم السلام آسمانوں میں اپنے جسموں کے ساتھ موجود نہیں تھے بلکہ ان کی روحوں کو وہاں جمع کیا گیا تھا ) البتہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ذات اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ ان کے بارے میں یہ ثابت ہے کہ وہ اپنے جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور وہاں موجود ہیں ، اسی طرح بعض حضرات نے حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں بھی یہی کہا ہے ۔ رہا مسجد اقصیٰ ( بیت المقدس ) کا معاملہ ، کہ وہاں انبیاء علیہم السلام کا نماز پڑھنا کس صورت پر محمول ہے ؟ تو یہ بھی احتمال ہے کہ محض ان کی روحوں نے نماز پڑھی تھی اور یہ بھی احتمال ہے کہ ان کے جسموں نے اپنی روحوں کے ساتھ نماز پڑھی ۔ یہ دوسرا احتمال زیادہ قرین قیاس یوں ہے کہ پہلے گذر ہی چکا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنے پروردگار کے یہاں زندہ ہیں اور اللہ نے انبیاء علیہم السلام کے جسموں کو کھانا زمین پر حرام کیا ہے ( یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین انبیاء علیہم السلام کے جسم کو نہیں کھاتی اور وہ اپنی قبروں میں جوں کے توں موجود ہیں ) اور چونکہ ان کے جسم وبدن عام جسموں کی طرح کثیف نہیں ہیں بلکہ روحوں کی طرح لطیف ہیں لہٰذا قادر مطلق اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سبب عالم ملک وملکوت میں کہیں بھی ان کے حاضر وجمع ہونے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے ۔ خود حدیث کے وہ الفاظ بھی جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام کے نماز پڑھنے کا ذکر ہے ، اسی بات کی تائید کرتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام نماز پڑھتے وقت بیت المقدس میں اپنے جسم اور روح دونوں کے ساتھ تھے، کیونکہ نماز کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ مختلف افعال جو اعضاء جسم کے ذریعہ صادر ہوں نہ کہ محض روح کے ساتھ ۔ یہاں ایک اشکال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان انبیاء علیہم السلام کو مسجد اقصیٰ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی اور پھر ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال وتکریم کے لئے آسمانوں پر پہنچادیا گیا ہے ، یا یہ کہ مسجد اقصیٰ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھنے کے بعد ان کی روحوں کو آسمانوں پر متشکل کر دیا گیا جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں ملاقات فرمائی، البتہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام اپنے جسموں کے ساتھ ہی آسمانوں میں تھے ۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ ان انبیاء علیہم السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھانے اور ان کے ساتھ جمع ہونے کا واقعہ سدرۃ المنتہی سے واپسی کے بعد پیش آیا ہو ۔ تاہم اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے، اس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے ، اس نے جس طرح چاہا اپنی قدرت کا کرشمہ ظاہر کیا ، اگر اولیاء اللہ کو متعدد صورتوں کے ساتھ مختلف جگہوں پر لوگ دیکھ سکتے ہیں ( جیسا کہ بعض بزرگوں کے حلات میں لکھا ہے ، تو انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ ایسی صورت پیش آنے میں کیا استبعاد ہے اور خوارق عادات ( یعنی معجزوں اور کرشموں ) کا مطلب بھی تو یہی ہے کہ جو چیزیں عقل وقیاس میں آنے والی نہ ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ظہور میں آئیں ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک میانہ قد مرد نظر آئے " میں " میانہ قد " لفظ جعد کا ترجمہ ہے ویسے لغت میں اس لفظ کے مختلف معنی آتے ہیں جن میں سے ایک تو یہی " میانہ قد " ہے ' دوسرے ہلکا لیکن گول گٹھا ہوا مضبوط جسم ، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مضبوط بدن کے آدمی تھے ، اور تیسرے گھونگھریالے بال ، لیکن جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے ، اس تیسرے کا اطلاق حضرت موسیٰ علیہ السلام پر موزوں نہیں ہوگا کیونکہ دوسری روایتوں سے ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بال گھونگھریالے نہیں تھے بلکہ وہ سیدھے بال والے تھے ۔
" جب نماز کا وقت آیا تو میں ان سب کا امام بنا " اس موقع پر ان انبیاء کرام علیہم السلام کا مسجد اقصی میں جمع ہونا اور نماز پڑھنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نماز دراصل مؤمن کی معراج ہے، یعنی یہی وہ عبادت ہے جو بندے کو اپنے خالق سے ملاتی ہے ، اور عبودیت کا سب سے بڑا مرتبہ عطا کرتی ہے کیونکہ اپنے رب کے آگے حضور اور پروردگار کے کمال قرب کی حالت اسی عبادت سے نصیب ہوتی ہے اور یہ حالت عشاق کے نزدیک سب سے بڑی لذت اور سب سے زیادہ کیف آور ہے ۔ حدیث کے الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان انبیاء علیہم السلام کو یہ نماز آسمان پر جانے سے پہلے بیت المقدس میں پڑھائی اور یہ بھی احتمال ہے کہ ان انبیاء علیہم السلام کے نماز پڑھنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کا واقعہ آسمان پر بھی پیش آیا ہو ، گو حدیث کے الفاظ اس طرف اشارہ نہیں کرتے بلکہ اس واقعہ کا بیت المقدس ہی میں پیش آنا مفہوم ہوتا ہے ۔ نیز یہ نماز جس کی امامت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ، یا تو نماز تحیہ تھی یا معراج کی مناسبت سے وہ مخصوص نماز تھی جو صرف اسی موقع پر پڑھی گئی ۔ یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ مکہ سے لے کر بیت المقدس تک اور وہاں سے آسمانوں تک معراج کا سارا واقعہ اس دنیا سے ماوراء عالم ملک وملکوت سے تعلق رکھتا ہے اور وہ عالم عبادات واعمال کی کوئی ذمہ داری اور مسؤلیت عائد نہیں کرتا ، تو پھر انبیاء علیہم السلام نے نماز کیوں پڑھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو انبیاء کرام صلوات اللہ علیہم حقیقی ودنیاوی حیات کے ساتھ زندہ ہیں، اور چونکہ وہ زندہ ہیں ، اس لئے ہو سکتا ہے کہ انہیں نماز کی ادائیگی کا مکلف بنایا گیا ہو ، دوسرے یہ کہ اس عالم میں نماز یا کسی بھی عبادت کا وجوب بیشک اٹھا ہوا ہے لیکن ان کا وجود نہیں اٹھایا گیا :
" لیکن سلام میں پہلی اسی نے کی " یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دبدبہ اور شان رحمت چونکہ دوزخ کی آگ اور داروغہ دوزخ پر غالب ہے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس تفوق وبرتری کی بناء پر داروغہ دوزخ نے خود بڑھ کر سلام کیا ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آسمان پر پیش آیا جیسا کہ ترجمہ کے دوران بھی اشارہ کیا گیا ۔

یہ حدیث شیئر کریں