مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معجزوں کا بیان ۔ حدیث 455

غار ثور کا واقعہ

راوی:

عن أنس بن مالك أن أبا بكر الصديق رضي الله عنه قا ل : نظرت إلى أقدام المشركين على رؤوسنا ونحن في الغار فقلت يا رسول الله لو أن أحدهم نظر إلى قدمه أبصرنا فقال : " يا أبا بكر ما ظنك باثنين الله ثالثهما " متفق عليه

" حضرت انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روای ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا : جب ہم غار میں چھپے ہوئے تھے اور میں نے مشرکوں کے پیروں کی طرف دیکھا جو گویا ہمارے سروں پر تھے تو میں نے عرض کیا ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر ان میں سے کسی ایک کی نظر اپنے پیروں کی طرف چلی گئی تو ہم کو دیکھ لے گا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یہ سن کر ) فرمایا ۔ " ان دو شخصوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا ساتھی اللہ ہے ۔ " ( بخاری ومسلم )

تشریح :
" غار " سے مراد مشہور پہاڑ جبل ثور کے بالائی حصہ کی وہ غار ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ کو سفر ہجرت کے دوران تین راتیں بسر فرمائی تھیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے ساتھ تھے ، جبل ثور مکہ کے مشرقی جنوبی سمت تقریبًا ساڑھے تین سو میل کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنا وطن عزیز چھوڑ کر مدینہ منورہ جانے کے لئے مکہ سے روانہ کر دئیے ، ان کو حکم دیا گیا کہ جس طرح بھی ممکن ہو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ واپس لایا جائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیق سفر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جبل ثور کے اس غار میں چھپے ہوئے تھے کہ اچانک ان گماشتوں کی ایک ٹولی اس غار کے دہانے تک پہنچ گئی ، اس غار کا محل وقوع اس طرح کا ہے کہ اگر کوئی شخص غار کے باہری کنارہ پر کھڑا ہو تو غار کے اندر موجود شخص کی نظر اس کے پیروں پر پڑتی ہے اور اگر باہری کنارہ پر کھڑا ہوا شخص نیچے نظر کر کے اپنے پیروں کی طرف دیکھے تو وہ غار کے اندر موجود شخص کو بڑی آسانی کے ساتھ دیکھ سکتا ہے ، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ مشرکین مکہ کے گماشتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں اس غار تک پہنچ گئے ہیں اور وہ لوگ بالکل غار کے منہ پر کھڑے ہوئے ہیں ، جوں ہی ان میں سے کسی شخص کی نظر ان کے اپنے پیروں کی طرف جائے گی ، وہ ہمیں دیکھ لے گا اور اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر دسترس کا موقع ان لوگوں کو مل سکتا ہے ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی اس تشویش اور گھبراہٹ کا اظہار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے یقین کے ساتھ ان کو اطمینان دلایا کہ ہم اور تم وہ دو شخص ہیں جن کے ساتھ ایک تیسری ذات اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت بھی ہے ہمارا پروردگار ہماری حفاظت فرمائے گا اور ہمیں اپنے دشمنوں کے چنگل میں پڑنے سے بچائے گا ۔ اور ایسا ہی ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیارے ساتھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس طرح حفاظت فرمائی کہ وہ مشرکین مکہ جو غار کے منہ پر کھڑے ہوئے اپنی تیز نگاہوں سے ادھر ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کر رہے تھے اور اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی غار میں موجود ہیں ، عین موقع پر حوصلہ ہار بیٹھے ، نہ تو ان کو آگے تلاش کا موقع ملا اور نہ انہیں پیروں کی طرف غار کے اندر دیکھنا نصیب ہو سکا، صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ کا ظہور تھا۔
علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشرکوں کے حق میں یہ بد دعا فرمائی تھی، اے اللہ ! ان کی آنکھوں کی بینائی معطل کر دے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان سب کو اس طرح بے بصر کر دیا کہ وہ غار کے چاروں طرف گھومتے تھے مگر اس کے اندر موجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھنے پر قادر نہیں ہوتے تھے اور جیسا کہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ اس موقع پر کبوتروں نے غار کے منہ پر انڈے رکھ دئیے اور مکڑیوں نے جالا تن دیا یہ بھی معجزہ ہی تھا۔

یہ حدیث شیئر کریں