مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معجزوں کا بیان ۔ حدیث 456

سفر ہجرت کے دوران دشمن کے خلاف معجزہ کا ظہور

راوی:

وعن البراء بن عازب عن أبيه أنه قال لأبي بكر : يا أبا بكر حدثني كيف صنعتما حين سريت مع رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : أسرينا ليلتنا ومن الغد حتى قام قائم الظهيرة وخلا الطريق لا يمر فيه أحد فرفعت لنا صخرة طويلة لها ظل لم يأت عليها الشمس فنزلنا عندها وسويت للنبي صلى الله عليه و سلم مكانا بيدي ينام عليه وبسطت عليه فروة وقلت نم يا رسول الله وأنا أنفض ما حولك فنام وخرجت أنفض ما حوله فإذا أنا براع مقبل قلت : أفي غنمك لبن ؟ قال : نعم قلت : أفتحلب ؟ قال : نعم . فأخذ شاة فحلب في قعب كثبة من لبن ومعي إداوة حملتها للنبي صلى الله عليه و سلم يرتوي فيها يشرب ويتوضأ فأتيت النبي صلى الله عليه و سلم فكرهت أن أوقظه فوافقته حتى استيقظ فصببت من الماء على اللبن حتى برد أسفله فقلت : اشرب يا رسول الله فشرب حتى رضيت ثم قال : " ألم يأن الرحيل ؟ " قلت : بلى قال : فارتحلنا بعد ما مالت الشمس واتبعنا سراقة بن مالك فقلت : أتينا يا رسول الله فقال : " لا تحزن إن الله معنا " فدعا عليه النبي صلى الله عليه و سلم فارتطمت به فرسه إلى بطنها في جلد من الأرض فقال : إني أراكما دعوتما علي فادعوا لي فالله لكما أن أرد عنكما الطلب فدعا له النبي صلى الله عليه و سلم فنجا فجعل لا يلقى أحدا إلا قال كفيتم ما ههنا فلا يلقى أحدا إلا رده . متفق عليه

" حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے محترم ( حضرت عازب ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اے ابوبکر ! جب ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے ارادہ سے مکہ چھوڑا اور مدینہ روانہ ہوئے اور ) تم نے رات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا تو ( غار سے نکلنے کے بعد ) تمہیں کیا کیا حالات، اور واردات پیش آئے ؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ! " ( غار سے نکل کر ) ہم ساری رات چلتے رہے اور اگلے دن کا کچھ حصہ بھی ( یعنی دوپہر تک ) سفر میں گزرا یہاں تک کہ جب ٹھیک دوپہر ہوگئی اور سورج ٹھہر گیا اور راستہ ( آنے جانے والوں سے ) بالکل خالی ہوگیا تو ہمیں ایک چٹان نظر آئی جس کے نیچے سایہ تھا اور سورج اس پر نہیں آیا تھا ( یعنی اس چٹان کے نیچے جو کھوہ یا غار تھا اس میں دھوپ نہیں تھی ۔ چنانچہ ہم اس چٹان کے نیچے اتر گئے اور میں نے وہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک جگہ اپنے ہاتھوں سے ہموار اور صاف کی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سو رہیں پھر میں نے اس جگہ پر پوستین بچھایا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سو جائیے ، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادھر ادھر نگرانی رکھوں گا کہ کسی طرف سے دشمن کا کوئی آدمی تو ہماری ٹوہ میں نہیں ہے ، اگر کوئی ادھر آئے گا تو اس کو روکوں گا ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوگئے اور وہاں سے نکل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے چاروں طرف نگرانی رکھے ہوئے تھا کہ اچانک میں نے ایک چرواہے کو دیکھا جو سامنے سے آرہا تھا (جب وہ میرے قریب آگیا تو ) میں نے پوچھا کہ کیا تمہاری بکریوں میں دودھ ہے ؟ اس نے کہا ہاں ہے ، کیا تو دودھ دوہ کر دے گا ؟ اس نے کہا ہاں ! پھر اس نے ایک بکری کو پکڑا اور لکڑی کے پیالے میں تھوڑا سا دودھ دوہ دیا ، میرے پاس ایک چھاگل تھی جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے استعمال کے لئے رکھی تھی ، اس میں پانی رہتا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پینے اور وضو کے کام آتا تھا ، میں دودھ لے کر ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے تھے ، میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا اور خود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بیدار ہوئے (اور میں بھی اٹھ گیا ) پھر میں نے دودھ میں (اتنا) پانی ڈالا کہ نیچے تک ٹھنڈا ہوگیا اور پھر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! نوش فرمائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دودھ نوش فرمایا اور میں بہت خوش ہوا ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا کوچ کا وقت آیا؟ میں نے کہا! ہاں آگیا ہے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ پس ہم نے سورج ڈھلنے کے بعد (ٹھنڈے وقت ) وہاں سے کوچ کیا اور ( آگے سفر شروع ہوا تو ) پیچھے سے سراقہ ابن مالک آگیا ، میں نے (اس کو دیکھ کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !دشمن ہمیں پکڑ نے آگیا ہے ۔ ۔ ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ڈرو نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ کے لئے بددعا کی اور سراقہ کا گھوڑا اس کو لئے ہوئے پیٹ تک زمین میں دھنس گیا ۔ سراقہ (اس صورت حال سے دوچار ہو کر بدحو اس ہوگیا اور ) کہنے لگا کہ میں جانتا ہوں ، تم دونوں نے میرے لئے بددعا کی ہے ، اب میری نجات وخلاصی کے لئے بھی تم دعا کرو مجھ کو اس گرفت سے نجات دلا دو تو) میں اللہ کو گواہ بنا کر وعدہ کرتا ہوں کہ میں کفار کو تمہارا تعاقب کرنے سے روک دوں گا ۔چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے دعا فرمائی اور وہ اس گرفت سے نجات پا گیا ۔ اور سراقہ نے (اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے یہ کیا) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں مکہ سے روانہ ہونے والے کافروں میں سے ) جو بھی اس راستہ میں ملتا وہ اس سے کہتا کہ تمہارے لئے میرا تلاش کرنا کافی ہے (یعنی میں بہت دور سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرکے دیکھ چکا ہوں ان کا کہیں پتہ نہیں چلا تم ان کو تلاش کرنے کی زحمت برداشت نہ کرو ) سراقہ کو جو شخص بھی ملتا اس کو وہ یہی کہہ کر واپس کردیتا ۔" ( بخاری و ومسلم)

تشریح ۔
اور خود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا " یہ فوافقتہ کا ترجمہ ہے ، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوتا دیکھ کر نہ صرف یہ کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگانا پسند کیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح میں خود بھی ایک طرف کو لیٹ کر سوگیا ۔ اور ایک روایت میں یہ لفظ " ف پر ق کی تقدیم کے ساتھ ہے ، اس صورت میں ترجمہ ومطلب یہ ہوگا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوتا دیکھ کر توقف کیا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگانا مناسب نہیں سمجھا اور اس وقت تک انتظار کرتا رہا جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بیدار نہ ہوگئے ۔
" پھر میں نے دودھ میں پانی ڈالا " عربوں کی عادت تھی کہ دودھ کی حرارت کو زائل کرنے کے لئے اس میں ٹھنڈا پانی ملالیتے تھے اور پھر اس کو پیتے تھے ، چنانچہ اس موقع پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس عادت ومعمول کے مطابق بکری کے اس دودھ میں اتنا پانی ملادیا جس سے وہ دودھ خوب ٹھنڈا ہوگیا ۔
" اور میں بہت خوش ہوا۔'یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس بات سے بہت خوشی وطمانیت محسوس ہوئی کہ ان کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ دیر استراحت کا موقع مل گیا بلکہ دودھ بھی فراہم ہوگیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشاشت وخوش طبعی کے ساتھ نوش فرمایا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ محب کی اصل خوشی محبوب کی خوشی اور راحت میں ہوتی ہے ۔
اس موقع پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی بکریوں کا دودھ کیسے دوہا اور پیا گیا جس کی مالک کی اجازت حاصل نہیں تھی ؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ وہ بکریاں کسی ایسے شخص کی تھیں جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دوست اور معتمد تھا ۔ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اس دوست کی اجازت کا اعتماد رکھتے تھے ، دوسرا جواب یہ ہے کہ عربوں اور خاص طور پر اہل مکہ کی عادت تھی کہ وہ اپنے چرواہوں کو پہلے ہی اجازت دیدیتے تھے کہ انہیں جو مسافر یا بھوکا ملے اور طلبگار ہو تو اس کو بلاتوقف دودھ نکال کر دے دیا کریں ، اور ایک تیسرا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مطلوبہ قیمت دیکر وہ دودھ حاصل کیا ہوگا !
" سراقہ ابن مالک " ان لوگوں میں سے ایک تھا جن کو قریش مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب پر مامور کیا تھا اور یہ اعلان کیا تھا کہ جو شخص بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کر لائے گا اور ہمارے حوالے کردے گا اس کو بطور انعام سو اونٹ دئیے جائینگے ۔ یہ سراقہ ابن مالک فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوگئے تھے !
" اور وہ گرفت سے نجات پا گیا " ایک روایت میں یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کے نتیجہ میں سراقہ کے زمین میں دھنسنے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بعد نجات پانے کا واقعہ تین بار ہوا یعنی وہ ہربار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کرا کر نجات پاجاتا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑنے کے لئے آگے بڑھنے لگتا ، یہاں تک کہ وہ جب تیسری مرتبہ اپنے گھوڑے کے ساتھ زمین میں دھنسا اور اس کی لجاجت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں دعا کر کے اس کو نجات دلوائی تو وہ اپنے برے ارادہ سے باز آگیا اور پھر نہ صرف یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑنے کے لئے خود آگے نہیں بڑھا بلکہ واپسی میں اس کو جو شخص بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں آتا ہوا ملا اس کو اس نے واپس کر دیا اور کسی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنے نہیں دیا ۔
اس حدیث سے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے اور مختلف وجوہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت کا اظہار ہوتا ہے وہیں کئی قیمتی اور مفید باتیں بھی سامنے آتی ہیں ایک تو یہ کہ تابع کو اپنے متبوع کی خدمت میں اپنی پوری کوشش اور صلاحیت صرف کرنی چاہئے، دوسرے یہ کہ سفر میں ایسا برتن ( یعنی چھاگل یا لوٹا وغیرہ ) ساتھ رکھنا کہ جو پانی پینے اور طہارت و وضو کے کام آئے نہایت ضروری ہے، اور تیسرے یہ کہ بندہ کو ہر حالت میں اپنے اللہ پر اعتماد اور توکل رکھنا چاہئے کہ نتیجہ اور انجام کی بہتری اسی صورت میں حاصل ہوتی ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں