مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معجزوں کا بیان ۔ حدیث 458

جنگ بدر سے متعلق پیش خبری کا معجزہ

راوی:

وعنه قا ل : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم شاور حين بلغنا إقبال أبي سفيان وقام سعد بن عبادة فقال : يا رسول الله والذي نفسي بيده لو أمرتنا أن نخيضها البحر لأخضناها ولو أمرتنا أن نضرب أكبادها إلى برك الغماد لفعلنا . قال : فندب رسول الله صلى الله عليه و سلم الناس فانطلقوا حتى نزلوا بدرا فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " هذا مصرع فلان " ويضع يده على الأرض ههنا وههنا قا ل : فما ماط أحدهم عن موضع يد رسول الله صلى الله عليه و سلم . رواه مسلم

" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جب کہ ہمیں ابوسفیان کے آنے کی خبر ملی ، ( مدینہ والوں سے ) صلاح مشورہ کیا تو سعد ابن عبادہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس پاک ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنی سواری کے جانوروں کو سمندر میں ڈال دینے کا حکم دیں تو بلاشبہ ہم ایسا ہی کریں گے ( یعنی روئے زمین پر موقوف نہیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہوگا تو ہم دشمن تک پہنچنے اور اس کا قلع قمع کرنے کے لئے سمندر میں اپنے گھوڑے دوڑا دیں گے ) اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہو کہ ہم اپنے اونٹوں اور گھوڑوں کے جگر کو برک غماد تک ماریں تو ہم بے شک ایسا ہی کریں گے ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام لوگوں یعنی مہاجرین وانصار کو ( جنگ کے لئے ) جوش وخروش سے بھر دیا اور تیار کیا اور سب لوگ روانہ ہوگئے یہاں تک کہ جب بدر کے مقام پر پہنچے ( معرکہ آرائی کے لئے اس جگہ کو منتخب کیا گیا ) تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مجاہدین اسلام کو مخاطب کر کے ) فرمایا ( دیکھو) یہ جگہ فلاں شخص کے ہلاک ہونے اور اس کی نعش گرنے کی ہے ( اور اس جگہ فلاں شخص قتل ہو کر گرے گا ) اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے کفار واشقیاء کے نام لیتے جاتے تھے اور زمین پر ( ایک ایک جگہ ) ہاتھ رکھتے ( اور کہتے جاتے تھے کہ ) فلاں شخص یہاں مر کر گرے گا اور فلاں شخص کی لاش یہاں گرے گی ۔ " حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں جہاں ہاتھ رکھ دیا تھا وہاں سے ایک شخص بھی متجاوز نہیں ہوا ۔ " ( مسلم )

تشریح :
" جب کہ ہمیں ابوسفیان کے آنے کی خبر ملی ۔ " یہ غزوہ بدر کی ابتدائی مرحلہ کا ذکر ہے کہ مکہ کا ایک سردار ابوسفیان اپنے تجارتی قافلہ کے ہمراہ ملک شام سے مکہ واپس آرہا تھا ، قافلہ میں آدمی تو صرف چالیس سوار تھے لیکن مال اسباب بہت زیادہ تھا ، جب مدینہ میں مسلمانوں کو ابوسفیان کے اس تجارتی قافلہ کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے اہل مکہ پر بھر پور اقتصادی ومالی ضرب لگانے کے لئے اس موقع کو غنیمت جانا ، ان کا خیال تھا کہ قافلہ کے چالیس سواروں کو زیر کر کے ان تمام مال واسباب پر قبضہ کر لیا جائے گا ، لیکن اول تو خود ابوسفیان کو مسلمانوں کے حملہ کی اطلاع مل گئی اور اس نے عام راستہ چھوڑ کر ساحلی راستہ اختیار کر لیا جس سے مسلمانوں کی زد سے وہ محفوظ ہوگیا دوسرے یہ خبر مکہ بھی پہنچ گئی اور اہل مکہ نے مسلمانوں سے فیصلہ کن جنگ کرنے کا ارادہ کر لیا ، چنانچہ ابوجہل نے کعبہ کی چھٹ پر چڑھ کر اہل مکہ کو مسلمانوں کے خلاف للکارا اور انہیں نہایت مشتعل کر کے جنگ پر آمادہ کیا ! جب پوری تیار ہوگئی تو ابوجہل زبر دست حربی طاقت کے ساتھ مکہ سے روانہ ہوا ، راستہ میں کچھ لوگوں نے اس کو سمجھایا بھی کہ جب ہمارا قافلہ ساحلی علاقہ پر لگ گیا ہے اور مسلمانوں کی زد سے محفوظ واپس آرہا ہے تو اب مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے جانے میں کوئی عقلمندی نہیں ہے ، بہتر یہ ہے کہ ہم لوگ مکہ لوٹ جائیں لیکن ابوجہل کے تو زوال کا وقت آگیا تھا ، اس نے لوگوں کا یہ مشورہ ماننے سے انکار کر دیا اور بدر پہنچ گیا ۔ اسی موقع پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں صورتوں میں سے ایک صورت کا وعدہ کیا ہے ، چاہے قافلہ کو زیر کر کے مال حاصل کر لو اور چاہے ( جنگ کر کے ) دشمنوں پر فتح حاصل کر لو ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجر وانصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمع کر کے مشورہ فرمایا کہ ابوسفیان تو ساحلی راستہ اختیار کر کے ہماری زد سے بچ گیا ہے اور اب جب کہ ابوجہل ہمیں نیست ونابود کر دینے کا عزم لے کر زبردست فوجی طاقت کے ساتھ ہمارے مقابلہ پر نقل کھڑا ہوا ہے تو ہمیں کیا رویہ اور طریقہ کار اختیار کرنا چاہئے ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مشورہ طلب کرنا دراصل انصار مدینہ کو آزمانا اور ان کارد عمل جاننا تھا ، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں ان سے جو بیعت لی تھی اس میں یہ بات شامل نہیں تھی کہ وہ ( انصار ) جہاد کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلیں گے اور دشمن کے مقابلہ پر مسلمانوں کی اقدامی کا روائی میں جانی ومالی مدد دیں گے ، ان سے صرف اس بات پر بیعت لی گئی تھی کہ وہ ان لوگوں سے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کریں گے جو آپ پر حملہ آور ہوں گے ، اس وقت یہ صورت حال تھی کہ کوئی دشمن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں پر حملہ آور نہیں ہو رہا تھا بلکہ خود مسلمانوں سے جنگ کی طرف سے ابوسفیان کے تجارتی قافلہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور اس کے شاخسانہ کے طور پر اہل مکہ مسلمانوں سے جنگ کرنے نکل کھڑے ہوئے تھے، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ضروری جانا کہ انصار سے مشورہ کر کے ان کا رد عمل جان لیا جائے کہ آیا وہ اس کار روائی میں ہماری مدد کرتے ہیں یا نہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو انصار کی طرف سے نہایت حوصلہ افزا جواب ملا انہوں نے نہ صرف اس موقع پر تن من ، دھن سے جان نثاری کا ثبوت دیا بلکہ بعد میں بھی جب کوئی ایسا موقع آیا انہوں نے پوری یگانگت اور موافقت کے ساتھ خود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین کے دوش بدوش رکھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مشورہ طلب کرنے میں امت کے لئے بھی تلقین وترغیب ہے کہ اپنے مسائل ومعاملات میں اصحاب عقل ودانش اور اپنے رفقاء ومعاونین سے مشورہ کرنا حسن مآل تک پہنچنے کا بابرکت ذریعہ ہے ۔
" سعد ابن عبادہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا ۔۔۔ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا مشورہ طلب کرنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مقصد چونکہ انصار کا ردعمل جاننا تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر حضرت سعد ابن عبادہ جواب دینے کے لئے کھڑے ہوئے جو انصار کے ایک سردار تھے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیا اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم کسی بھی حالت میں آپ کی مدد کرنے سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں، یہ تو بہت نزدیک کے دشمن کے مقابلہ پر جانے کی بات ہے اگر ہمیں دور دراز علاقوں میں جانے کا حکم دیں تو چاہے ہمیں زمین پر سفر کرنا پڑے چاہے سمندر میں اتر کر جانا پڑے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کا مقابلہ کریں گے ۔
" برک غماد " ایک مقام کا نام تھا جو مدینہ سے بہت دور یمن میں واقع تھا ، یا ہجر کے پر لے کنارہ پر اور یا اس کی آبادیوں کے بالکل آخری کنارہ پر تھا ۔۔۔ اونٹوں یا گھوڑوں کے جگر کو مارنا ، سورای کے جانور کو نہایت تیز ہانکنے سے کنایہ ہے ۔ اور اس میں لفظی مناسبت یہ ہے کہ جب کوئی شخص مثلا گھوڑے پر سوار ہوتا ہے اور گھوڑا تیز بھاگتا ہے تو سوار کے پیر اس گھوڑے کے جسم کے اس حصہ پر زور زور سے لگتے جاتے ہیں جہاں جگر ہوتا ہے اس جملہ کا مطلب یہی تھا کہ اگر آپ ہمیں اپنی سواریوں کو تیز بھگا کر برک غماد تک جو یہاں سے بہت دور واقع ہے ، دشمن کے مقابلہ پر پہنچنے کا حکم دیں تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں یہاں سے فورًا روانہ ہو جائیں گے اور کہیں رکے بغیر نہایت تیز رفتاری سے برک غماد پہنچ کر ہی دم لیں گے ۔
حدیث کے آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک بڑے معجزہ کا ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مقام پر پہنچ کر جنگ شروع ہونے سے بھی پہلے ستر کافروں کی لاشیں گرنے کی جگہوں کے بارے میں بتا دیا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کے نام لے لے کر اور ایک ایک جگہ ہاتھ رکھ کر اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آگاہ فرمایا تھا کہ ان میں سے فلاں شخص اس جگہ مقتول ہو کر گرے گا اور فلاں شخص کی لاش یہاں گرے گی ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب جنگ شروع ہوئی اور مجاہدین اسلام نے کافروں کو قتل کرنا شروع کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کافر کے لئے جس جگہ کا اشارہ فرما دیا وہ اسی جگہ مارا گیا اور اس کی لاش وہاں سے ذرا بھی ادھر ادھر نہیں گری ۔

یہ حدیث شیئر کریں