مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ کرامتوں کا بیان ۔ حدیث 536

کھانے میں اضافہ کا کرشمہ

راوی:

وعن عبد الرحمن بن أبي بكر أن أصحاب الصفة كانوا أناسا فقراء وإن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " من كان عنده طعام اثنين فليذهب بثالث وإن كان عنده طعام أربعة فليذهب بخامس أو سادس " وأن أبا بكر جاء بثلاثة فانطلق النبي صلى الله عليه و سلم بعشرة وإن أبا بكر تعشى عند النبي صلى الله عليه و سلم ثم لبث حتى صليت العشاء ثم رجع فلبث حتى تعشى النبي صلى الله عليه و سلم فجاء بعد ما مضى من الليل ما شاء الله . قالت له امرأته : وما حبسك عن أضيافك ؟ قال : أوما عشيتيهم ؟ قالت : أبوا حتى تجيء فغضب وقال : لا أطعمه أبدا فحلفت المرأة أن لا تطعمه وحلف الأضياف أن لا يطعموه . قال أبو بكر : كان هذا من الشيطان فدعا بالطعام فأكل وأكلوا فجعلوا لا يرفعون لقمة إلا ربت من أسفلها أكثر منها . فقال لأمرأته : يا أخت بني فراس ما هذا ؟ قالت : وقرة عيني إنها الآن لأكثر منها قبل ذلك بثلاث مرار فأكلوا وبعث بها إلى النبي صلى الله عليه و سلم فذكر أنه أكل منها . متفق عليه
وذكر حديث عبد الله بن مسعود : كنا نسمع تسبيح الطعام في " المعجزات "

اور حضرت عبدالرحمن ابن ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اصحاب صفہ مفلس لوگ تھے (جن کے خوردونوش کا انتظام تمام مسلمان اپنی اپنی حیثیت واستطاعت کے مطابق کیا کرتے تھے ، چنانچہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا کہ جس شخص کے ہاں چار آدمیوں کا کھانا ہو وہ پانچویں شخص کو (اصحاب صفہ میں سے لے جائے یا چھٹے شخص کو بھی لے جائے " (یہ سن کر ) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تین آدمیوں کو لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کھانا کھایا اور وہیں (کھانے کے بعد بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہے یہاں تک کہ جب عشاء کی نماز ہوگئی تو وہ (نماز کے بعد بھی اپنے گھر نہیں گئے بلکہ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر چلے آئے اور اس وقت تک خدمت اقدس میں حاضر رہے ۔ جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (تنہا یا اپنے مہمانوں کے ساتھ ) کھانا نہیں کھالیا ۔ اس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب اپنے گھر پہنچے تو رات کا اتنا حصہ کہ جو اللہ نے چاہا گذر چکا تھا ۔ اور اس وقت تک نہ صرف ان کے اہل وعیال بلکہ ان کے مہمان بھی گھر میں بیٹھے ان کا انتظار کرتے رہے، گھر میں ان کے داخل ہوتے ہی ان کی بیوی نے کہا : کس چیز نے آپ کو اپنے مہمانوں سے روک رکھا تھا ، یعنی آپ نے گھر آنے میں اتنی تاخیر کیوں کی جب کہ یہاں آپ کے مہمان کھانے کے لئے آپ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بولے تو کیا تم نے اب تک مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا ؟ بیوی بولیں : ان مہمانوں نے آپ کے آنے تک کھانا کھانے سے انکار کردیا تھا ، تاکہ کھانے میں ان کے ساتھ آپ بھی شریک رہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر اپنے گھر والوں پر ) سخت غصبناک ہوئے کیونکہ ان کو یہ خیال گذرا کہ گھر والوں ہی کی کوتاہی ہے جو انہوں نے اصرار کر کے مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا چنانچہ انہوں نے (اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کے لئے ) کہا کہ : اللہ کی قسم میں یہ کھانا ہرگز نہیں کھاؤں گا پھر ان کی بیوی نے بھی قسم کھالی کہ وہ اس کھانے کو (ہرگز نہیں کھائیں گی اور مہمانوں نے بھی قسم کھائی کہ وہ بھی اس کھانے کو (یا تو مطلق یا تنہا ) نہیں کھائیں گے بھر چند ہی لمحوں بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے کہ میرا اس طرح غضبناک ہوجانا اور قسم کھالینا (کوئی موزوں بات نہیں ہے بلکہ ) شیطان کے (بہکا دینے کے سبب ) سے تھا (جس پر مجھے اب سخت پشیمانی ہورہی ہے اور میں اپنے اللہ سے توبہ واستغفار کرتا ہوں ۔ یہ کہ) انہوں نے کھانا منگایا اور پھر سب لوگوں نے (یعنی خود انہوں نے ان کے گھر والوں نے اور ان کے مہمانوں نے کھانا کھایا ۔ (کھانے کے دوران یہ عجیب بات دیکھنے میں آئی کہ ) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے مہمان (برتن سے منہ کی طرف) جو لقمہ بھی اٹھاتے تھے اس کی جگہ کھانا اور بڑھ جاتا تھا (یعنی جب وہ لوگ لقمہ اٹھاتے تو برتن میں اس لقمہ کی جگہ کھانا کم ہونے کے بجائے پہلے سے بھی زیادہ ہوجاتا تھا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (یہ حیرت انگیز بات دیکھ کر ) اپنی بیوی کو مخاطب کر کے کہا : ارے بنو فراس کی بہن! ذرا دیکھنا ) یہ کیسا عجیب معاملہ ہے ۔ بیوی بولیں : اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم (میں خود بھی حیرت سے یہی دیکھے جارہی ہوں ) یہ کھانے کا برتن جتنا پہلے بھرا ہوا تھا اس سے سہ چند زیادہ اب بھرا ہوا ہے ، بہرحال سب نے (خوب سیر ہو کر ) کھانا کھایا اور پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ کھانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی بھیجا ، اور بیان کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کھانے میں سے تناول فرمایا (بخاری ومسلم ) اور حضرت عبداللہ ابن مسعود کی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کنانسمع تسبیح الطعام باب المعجزات میں نقل کی جاچکی ہے ۔"

تشریح :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے متصل اور حجرہ نبوی سے شمالی جانب واقع ایک چبوترہ تھا جس کو " صفہ " کہا جاتا تھا ، جو غریب ومفلس مہاجر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نہ گھر بار رکھتے تھے اور نہ بال بچے، وہ اس چبوترہ پر شب باش رہتے تھے ، اسی نسبت سے ان کو " اصحاب صفہ " کہا جاتا تھا ، یہ صحابہ اضیاف المسلمین (مسلمانوں کے مہمان) بھی کہلاتے تھے کیونکہ ان کے فقروافلاس اور بے مائیگی کی بناء پر ان کے خوردونوش کا انتظام عام مسلمان اپنی اپنی حیثیت واستطاعت کے مطابق کرتے تھے اور خالص اخلاقی وانسانی بنیاد پر ان کی مہمانداری کے فرائض انجام دیتے تھے ۔ جو لوگ کہیں باہر سے مدینہ آتے تھے اگر مدینہ میں ان کے جان پہچان والے ہوتے تو وہ انہی کے ہاں اترتے ورنہ یہی صفہ ان کی امامت گاہ بنتا مشہور صحابہ ابوذر غفاری، عمار ابن یاسر، سلمان فارسی ، صہیب ، ابوہریرہ ، جناب ابن ارت ، حذیفہ بن الیمان ، ابوسعیدخدری ، بشیربن انحصاصیہ رضوان اللہ علیہم اجمعین، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ابومویہبہ اصحاب صفہ ہی میں سے ہیں، " یاچھٹے شخص کو بھی لے جائے " یہ حکم اس پس منظر میں تھا کہ جس شخص کے گھر میں اس کے اہل و عیال کے چار آدمیوں کا کھانا موجود ہو اور وہ یہ سمجھتا ہو کہ وہ کھانا زیادہ سے زیادہ پانچ آدمیوں کی بھوک دفع کرسکتا ہے تو اپنے ساتھ پانچویں آدمی یعنی اصحاب صفہ میں سے ایک شخص کو لے جائے ، اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ چار آدمیوں کا وہ کھانا اتنا ہے کہ چھ آدمی بھی اپنی بھوک مٹا سکتے ہیں تو پھر وہ پانچویں کے بعد چھٹے آدمی کو بھی یعنی اصحاب صفہ میں سے دواشخاص کو اپنے ساتھ لے جائے ۔ اس صورت میں لفظ او تنویع کے لئے بھی ہوسکتا ہے اور تخییر کے لئے بھی ۔ تا ہم یہ احتمال بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ یہ لفظ اوشک کو ظاہر کرنے کے لئے ہے یعنی اصل حدیث کا جز نہیں ہے بلکہ راوی نے اس لفظ کے ذریعہ اپنے شک کا اظہار کیا ہے اور ایک بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ لفظ او دراصل بل کے معنی میں ہے جو ضیافت کے باب میں مبالغہ کے لئے استعمال ہوتا ہے مطلب یہ کہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا یہ فرمایا : جس شخص کے ہاں چار آدمیوں کا کھانا ہو وہ پانچویں شخص کو بلکہ چھٹے شخص کو بھی لے جائے ۔ اس وضاحت کی بنیاد وہ تناسب ہے جو ارشاد گرامی " جس شخص کے ہاں اپنے اہل وعیال کے لئے دو آدمیوں کا کھانا تو وہ تیسرے آدمی کو لے جانے " سے واضح ہوتا ہے اور جس کا تقاضا یہ ہے کہ جس شخص کے ہاں اپنے اہل وعیال کے چار آدمیوں کا کھانا تھا اس کو ایک نہیں دو مہمان کا، لے جانے کا حکم دیا جاتا بلکہ احمد ، مسلم ، ترمذی ، اور نسائی نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطریق مرفوع یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لئے کافی ہوسکتا ہے دو آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کو کافی ہوسکتا ہے اور چار آدمیوں کا کھانا آٹھ آدمیوں کو کافی ہوسکتا ہے۔
" اور اس وقت تک خدمت اقدس میں ظاہر رہے جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا نہیں کھایا ۔ یہ جملہ بظاہر عبارتی تکرار ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کھانے کا ذکر پہلے کیا جا چکا تھا، اب پھر یہاں اسی کو ذکر کر کے از سر نو آگے تک بیان کرنا مقصود ہے لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلے تو صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کھانے کا ذکر کیا گیا تھا کہ انہوں نے گھر میں اپنی بیٹی (حضرت عائشہ) کے پاس بیٹھ کر کھانا کھا لیا ہوگا اور یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے کا ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز کے بعد تنہا یا اپنے ان مہمانوں کے ساتھ کھایاجن کو آپ صفہ سے لے کر آئے تھے ۔
" انہوں نے کھانا منگایا اور پھر سب لوگوں نے کھانا کھایا یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے تو کھانا نہ کھانے کی قسم کھا لی اور پھر کھانا منگا کر کھا بھی لیا اس طرح انہوں نے قسم کے خلاف کیسے کیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے غصہ میں آکر قسم کھالی مگر پھر جب ان کو اپنے غصہ پر پشیمانی ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی طرف دھیان کیا گیا کہ : اگر کوئی شخص کسی بات پر قسم کھالے اور بعد میں وہی چیز بہتر دکھائی دے جو اس قسم کے خلاف ہو تو اس کو چاہئے کہ قسم کے خلاف عمل کرے لیکن قسم کا کفارہ ادا کردے " تو انہوں نے قسم توڑ کر کھانا منگایا اور قسم توڑنے کا کفارہ ادا کردیا ۔ ارے بنو فراس کی بہن !حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس موقع پر اپنی بیوی کو فرط حیرت سے ان کے ابائی قبیلہ کی طرف منسوب کرکے مخاطب اور متوجہ کیا ۔ وہ جس قبیلہ سے آبائی تعلق رکھتی تھیں اس کا نام " فراس تھا ۔ " اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم " یہ بیوی کا والہانہ انداز تھا جو انہوں نے اپنے محبوب شوہر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حیرت بھرے خطاب کے جواب میں اختیار کیا ۔ لیکن یہ بات اس صورت میں کہی جائے گی جب یہ مانا جائے کہ آنکھوں کی ٹھنڈک " سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تھے ۔ کیونکہ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ یہاں " آنکھوں کی ٹھنڈک " سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی مراد ہے ۔
" قرۃ العین " (آنکھوں کی ٹھنڈک ) دراصل عربی کی ایک محاوراتی اصلاح ہے جس سے محبوب کے دیدار اور اس دیدار سے حاصل ہونے والی لذت وخوشی کو تعبیر کیا جاتا ہے ویسے لفظ " قرۃ " یا " قر " ق کے پیش اور زبر دونوں کے ساتھ الگ الگ معنی رکھتا ہے لیکن یہ محاوراتی اصطلاح (قرۃ العین ) دونوں معنی! میں صادق آتی ہے کیونکہ اگر ق کے پیش کے ساتھ( قرہ ) ہو تو اس کے معنی خنکی اور ٹھنڈک کے ہوتے ہیں اور محبوب کا دیدار بلاشبہ آنکھ کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے ۔ اور اگر یہ لفظ ق کے زبر کے ساتھ " قرہ " ہو تو اس کے معنی قرار کے ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جب محبوب نظر کے سامنے آتا ہے تو آنکھ کو گویا قرار آجاتا ہے اور نگاہ روئے محبوب پر اس طرح جم جاتی ہے کہ پھر دائیں بائیں اٹھنے کی روا دار نہیں ہوتی ۔

یہ حدیث شیئر کریں