مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ کرامتوں کا بیان ۔ حدیث 539

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سفینہ کی کرامت

راوی:

وعن ابن المنكدر أن سفينة مولى رسول الله صلى الله عليه و سلم أخطأ الجيش بأرض الروم أو أسر فانطلق هاربا يلتمس الجيش فإذا هو بالأسد . فقال : يا أبا الحارث أنا مولى رسول الله صلى الله عليه و سلم كان من أمري كيت وكيت فأقبل الأسد له بصبصة حتى قام إلى جنبه كلما سمع صوتا أهوى إليه ثم أقبل يمشي إلى جنبه حتى بلغ الجيش ثم رجع الأسد . رواه في " شرح السنة

اور (جلیل القدر تابعی ) ابن منکدر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کرتے غلام حضرت سفینہ رومی علاقہ میں لشکر کا راستہ بھول گئے تھے یا دشمن کے ہاتھوں قید کر لئے گئے، پھر دشمن کے قبضہ سے نکل بھاگے اور اپنے لشکر کی تلاش میں لگ گئے اسی دوران (جنگل میں ) ان کی مڈ بھیڑ ایک بڑے شیر سے ہوگئی انہوں نے نہ صرف یہ کہ خطرناک شیر کو سامنے دیکھ کر بھی اپنے اوسان بحال رکھے بلکہ اس کو اس کی کنیت کے ذریعہ مخاطب کرکے ) کہا : اے ابوحارث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آزاد کردہ غلام ہوں اور میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے (کہ میں اپنے لشکر سے بھٹک گیا ہوں، یا یہ کہ دشمن کے ہاتھوں قید ہوگیا تھا ، اب ان کے قبضہ سے نکل بھاگا ہوں اور اپنے لشکر کی تلاش میں سرگرداں ہوں، شیر (یہ سنتے ہی) دم ہلاتا ہوا (کہ جو جانور کے مطیع و فرمانبردار ہوجانے کی علامت ہے ) ان کے پہلو میں آکر کھڑا ہوگیا ، اور پھر کسی طرف سے کوئی خوفناک (درندے وغیرہ کی) آواز آئی تو شیر (اس کے دفعیہ کے لئے ) اس آواز کی طرف لپکتا اور پھر واپس آجاتا ، اسی طرح وہ شیر (ایک محافظ اور رہبر کی مانند ) سفینہ کے پہلو بہ پہلو چلتا رہا یہاں تک کہ سفینہ اپنے لشکر میں پہنچ گئے اور شیر واپس چلا گیا ۔" (شرح السنۃ )

تشریح :
یا دشمن کے ہاتھوں قید کر لئے گئے " یہاں راوی نے اپنے شک کو ظاہر کیا کہ یا تو یہ صورت حال پیش آئی تھی کہ اس علاقہ میں حضرت سفینہ اسلامی لشکر سے بچھڑ گئے تھے اور اس کی تلاش میں ادھر ادھر سرگرداں تھے یا یہ کہ کہیں موقع پاکر دشمن نے ان کو اچک لیا تھا اور قید میں ڈال دیا تھا ۔" سفینہ " نام نہیں لقب ہے، اور اس بارے میں اختلاف ہے کہ اس کا اصل نام کیا ہے اور یہ لقب اس لئے مشہور ہوا کہ وہ ایک سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور بہت سارا سامان اپنے اوپر لادے ہوئے تھے، اس کے باوجود شرکاء سفر میں سے جو شخص تھک جاتا وہ اپنا سامان بھی ان پر لاد دیتا تھا اور وہ ہنسی خوشی سب کا بوجھ اپنے اوپر لادتے جاتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس حال میں دیکھا تو مزاحًا فرمایا کہ انت السفینۃ (تم تو کشتی ہو) بس اسی دن سے وہ " سفینہ " کے لقب سے اس طرح مشہور ہوئے کہ لوگوں نے ان کے اصل نام کا پتہ نہیں چلتا تھا، اگر کوئی ان سے پوچھتا کہ تمہارا اصل نام کیا ہے تو وہ جواب میرا نام بس وہی ہے جو میرے آقا نے رکھ دیا تھا یعنی سفینہ ۔

یہ حدیث شیئر کریں