مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ کرامتوں کا بیان ۔ حدیث 540

قبر مبارک کے ذریعہ استسقاء

راوی:

وعن أبي الجوزاء قال : قحط أهل المدينة قحطا شديدا فشكوا إلى عائشة فقالت : انظروا قبر النبي صلى الله عليه و سلم فاجعلوا منه كوى إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف ففعلوا فمطروا مطرا حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم فسمي عام الفتق . رواه الدارمي

اور مشہور تابعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ ابوالجوزاء کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ خشک سالی کی وجہ سے، مدینہ والے سخت قحط میں مبتلا ہوگئے تو انہوں نے ام المؤمنیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اپنی مصیبتوں اور پریشانیوں کا ذکر کیا (تاکہ وہ بارش کی دعا کریں اور کوئی تدبیر بتائیں ) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : ایسا کرو تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر رجوع کرو اور حجر کی چھت میں سے کچھ سوراخ آسمان کی طرف اس طرح کھول کہ قبر شریف اور آسمان کے درمیان چھت حائل نہ رہے چنانچہ لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کہنے کے مطابق عمل کیا اور پھر جو بارش ہوئی ہے تو ہرا چارہ بھی اتنا نکلا کہ (خوب کھا کھا کر ) اونٹ فربہ ہوگئے یہاں تک کہ چربی کی زیادتی سے ان کی کو کھیں پھول گئیں، اور اس سال کا نام ہی " فتق کا سال " پڑ گیا ۔" (درامی )

تشریح :
" کوئی " (ک کے زبرکے ساتھ اور پیش ک ساتھ بھی ) دراصل " کوۃ " (ک کے زبر اور پیش دونوں کے ساتھ ) جمع ہے جس کے معنی اس سوراخ یا روشن دان کے ہیں جو گھر کی چھت یا دیوار میں کھلا ہو حضرت عائشہ کا مطلب یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک جس حجرہ میں اس کی چھت میں اس طرح کے متعدد روشن دان کھول دو کہ قبر شریف اور آسمان کے درمیان کوئی حجاب حائل نہ رہے، تاکہ جب آسمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف دیکھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے صدمہ کو یاد کر کے روئے، تم پر پانی برسائے اور یہی ہوا کہ جب حجرہ شریف کی چھت میں بڑے بڑے سوراخ کر دئے گئے اور آسمان نے قبر مبارک دیکھی تو رونے لگا اور اس کے رونے کی وجہ سے ندی نالے بہہ پڑے واضح رہے کہ آسمان کے رونے کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے ، فرمایا گیا ، فمابکت علیہم السمآء والارض ۔ اس آیت میں ان لوگوں پر آسمان کے نہ رونے کا ذکر ہے، جو اللہ کے مبغوض بندے تھے ، لہٰذا اللہ کے محبوب اور برگزیدہ بندوں کے حق میں اس کے برعکس ہوتا ہے کہ آسمان ان کے لئے روتا ہے اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مشورہ پر حجرہ شریف کی چھت میں سوراخ کا کھولا جانا دراصل قبر مبارک سے وسیلہ وسفارش حاصل کرنا تھا، مطلب یہ کہ حیات مبارکہ میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کے ذریعہ بارش کے طلب گار ہوتے تھے اور جب ذات مبارک نے اس دنیا سے پردہ فرما لیا استسقاء (طلب بارش ) کی ضرورت پیش آئی تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حکم دیا کہ قبر مبارک کے اوپر سے چھت کھول دی جائے تاکہ رحمت حق جوش میں آئے اور پانی برسنے لگے بارش کی طلب گاری کا ذریعہ بنایا لیکن حقیقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک ہی اس طلبگاری کا ذریعہ اور وسیلہ تھی اور قبر مبارک کی چھت کا کھولا جانا اس طلبگاری کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانے اور پریشان حال لوگوں کی اضطراری کیفیت کو ظاہر کرنے کے لئے تھا ۔
" فتق " کے معنی ہیں پھول جانا ۔ اور بعض نے اس کے معنی پھٹ جانا، اور بعض نے " پھیل جانا " بھی بیان کئے ہیں مطلب یہ کہ بارش ہوجانے سے قحط کا اثر ختم ہوگیا، چاروں طرف ارزانی ہوئی، جنگل اور کھیت بھی ہریالے ہوگئے اور ہرا چارہ اتنا زیادہ نکلا کہ مویشیوں نے خوب کھایا پیا، اور پھر ان میں چربی اور فربہی بھی اتنی زیادہ ہوگئی کہ ان کی کو کھیں پھول گئیں یا ان کے بدن پھیل گئے اور پھٹ گئے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بارش کی طلب گاری میں قبر شریف کے ذریعہ ذات مبارک سے سفارش و وسیلہ حاصل کرنا اور اس کے اثرات کا ظاہر ہونا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کرامت تو ہے ہی لیکن حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا اور ویسے بھی امت کے اولیاء عظام کی کرامتیں پیغمبر امت کے معجزوں میں شمار ہوتی ہیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں