مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق ۔ حدیث 579

قریش کی فضیلت

راوی:

عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " الناس تبع لقريش في هذا الشأن مسلمهم تبع مسلمهم وكافرهم تبع لكافرهم " . متفق عليه

" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اس بات میں لوگ قریش کے تابع ہیں ، قریش کے مسلمان (تمام غیرقریشی ) مسلمانوں کے اور قریش کے کافر (تمام غیرقریشی ) کافروں کے سردار ہیں ۔ (بخاری ومسلم )

تشریح :
حدیث کے ظاہر سیاق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ " اس بات " سے مراد دین وشریعت ہے خواہ اس کے وجود کا اعتبار ہو یا اس کے عدم کا ۔ مطلب یہ کہ دین کے قبول یا عدم قبول یعنی ایمان وکفر کے معاملہ میں تمام لوگ قریش کے پیچھے ہیں اور قریش اقدامی وپیشوائی حیثیت رکھتے ہیں ، بایں طور کہ ایک طرف تو دین کا ظہور سب سے پہلے قریش میں ہوا اور سب سے پہلے قریش کے لوگ ایمان لائے اور پھر ان کی اتباع میں دوسرے لوگوں نے بھی ایمان لانا شروع کیا ، دوسری طرف وہ یعنی قریش ہی کے لوگ تھے جنہوں نے دین کی سب سے پہلے مخالفت کی اور مسلمانوں کی راہ روکنے کے لئے سب سے پہلے آگے آئے اس طرح اگر قریش کے کافروں کے تابعدار ہوئے چنانچہ اسلام کی تاریخ جاننے والے خوب جانتے ہیں کہ فتح مکہ سے پہلے تمام اہل عرب ، قریش مکہ کے اسلام لانے کا انتظار کرتے تھے ، جب اہل اسلام کے ہاتھوں مکہ فتح ہوگیا اور قریش مکہ مسلمان ہوگئے تو تمام عرب کے لوگ بھی جماعت در جماعت اسلام میں داخل ہوگئے جیسا کہ سورت اذا جاء نصر اللہ سے واضح ہوتا ہے ۔ بہرحال اس ارشاد کا مقصد قریش کی قائدانہ حیثیت کو بیان کرنا ہے کہ قیادت امارت کا جوہر انہی کو نصیب ہے خواہ وہ اپنے عہد جاہلیت سے وابستہ رہے ہوں یا عہد اسلام سے لیکن ان کی قیادت وامارت کو " فضل وشرف" کا اعتبار صرف اسلام کی صورت میں حاصل ہے نہ کہ کفر کی حالت میں ۔ اور اگر " فضل وشرف " کی قید مقصود نہ ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں قریش مطلق قیادت وامارت کا ذکر ہے خواہ اس کا دنیاوی امور سے ہو خواہ مذہبی امور سے ، چنانچہ زمانہ جاہلیت میں بھی نہ صرف دنیاوی اعتبار سے قریش مکہ تمام عرب قبائل میں " سردار " قبیلہ کی حیثیت رکھتے تھے بلکہ اس وقت کے ان مذہبی معاملات جیسے اللہ کی تولیت وکلید داری اور پانی پلانے وغیرہ کی ذمہ داریوں کا اعزاز بھی انہی کو حاصل تھا ۔
اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ" اس بات " سے مراد امامت کبریٰ اور منصب خلافت ہے جیسا کہ دوسری حدیثوں میں وضاحت کے ساتھ منقول بھی ہے اور اس ارشاد گرامی کا مقصد قریش کی قیادت تسلیم کرنے اور ان کی اتباع کا حکم دینا ہے ۔ پس اگر لوگ اس ارشاد گرامی کی روح اور اس سے اخذ شدہ حکم پر عمل نہ کرتے ہوئے قریش کی قیادت کو تسلیم نہ کریں اور ان کی اتباع سے انکار کریں تو یہ بات اس ارشاد گرامی کے اثبات کے منافی نہیں ہوگی ، کیونکہ کسی بھی حکم کے اثبات کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ عملی اور واقعاتی طور پر اس کا ظہور بھی ہو حکم کا مقصد تو کسی چیز کوثابت کرنا ہوتا ہے ، اگر اس حکم پر عمل نہ کرے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ حکم اپنی قوت اثبات ونفاذ سے خالی ہے پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد کے ذریعہ قریش کی قیادت وامارت کو اختیار وقبول کرنے کا جو حکم دیا ہے اس کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ قریش قیادت وامارت کا استحقاق اور اس کی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کی اہلیت رکھتے ہیں ، خواہ کوئی ان کی قیادت وامارت کو تسلیم کرے اور ان کی تابعداری کرے یا نہ کرے ۔

یہ حدیث شیئر کریں