مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق ۔ حدیث 584

چند عرب قبائل کا ذکر

راوی:

وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " غفار غفر الله لها وأسلم سالمها الله وعصية عصت الله ورسوله " . متفق عليه

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " (قبیلہ ) غفار کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے (قبیلہ ) اسلم کو اللہ تعالیٰ سلامت رکھے اور (قبیلہ ) عصیہ (تو وہ قبیلہ ) جو اللہ اور اللہ کے رسول کی معصیت میں مبتلا ہوا ۔" (بخاری ومسلم )

تشریح :
غفار " عرب کا ایک مشہور قبیلہ ہے ، ممتاز صحابی حضرت ابورذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ، کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں یہ قبیلہ حاجیوں کا مال چرایا کرتا تھا اور اپنی اس برائی کے سبب عام قبائل میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا ۔ اسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ کے حق میں دعا فرمائی کہ اس قبیلہ کے دامن پر جو پہلا داغ لگا ہوا ہے اللہ تعالیٰ اس کو مٹائے اور قبیلہ والوں کو مغفرت وبخشش سے نوازے کیونکہ اب اسی قبیلہ کے لوگ خوشی خوشی اسلام میں داخل ہوگئے ہیں اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ارشاد گرامی دعائیہ جملہ کے بجائے جملہ خبریہ ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کے ذریعہ خبردی کہ اللہ تعالیٰ نے اس قبیلہ کی جاہلی زندگی کے واقعات کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور اب اہل قبیلہ کو ان کے ایمان واسلام کی بدولت مغفرت وبخشش سے نوازدیا ہے ۔
" اسلم " بھی ایک قبیلہ کا نام ہے اس قبیلہ کے لوگوں نے چونکہ لڑائی کے بغیر اسلام قبول کرلیا تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس قبیلہ کے لوگوں کو سلامت رکھے اس قبیلہ کے بارے میں مذکورہ جملہ بھی جملہ خبریہ کا احتمال رکھتا ہے یعنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملہ کے ذریعہ یہ خبر دی ہو کہ یہ وہ قبیلہ ہے جس نے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو پسند نہیں کیا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس قبیلہ کے لوگوں کو قتل وتباہی سے سلامت ومحفوظ رکھا ۔
" عصیہ " اس بدنصیب قبیلہ کا نام ہے جس نے مسلمان قاریوں کو بیر معونہ پر مکروفریب کے ذریعہ بڑی بے دردی کے ساتھ شہید کردیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر بڑا رنج ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم قنوت میں اس قبیلہ کے لوگوں پر لعنت اور بددعا فرمایا کرتے تھے ۔ اس قبیلہ کے حق میں مذکورہ حدیث کے الفاظ صرف جملہ خبریہ کے طور پر ہیں ، ان میں جملہ دعائیہ کا کوئی احتمال نہیں ہے تاہم ان الفاظ میں اس قبیلہ کا ذکر جس طرح شکوہ کو ظاہر کرتا ہے وہ بجائے خود بددعا کو مستلزم ہے لیکن اس مفہوم میں نہیں کہ اہل قبیلہ گناہ ومعصیت میں زیادہ سے زیادہ مبتلا ہوں بلکہ اس مفہوم میں کہ قبیلے والوں نے جس عظیم معصیت اور سرکشی کا ارتکاب کیا اس پر ان کو دنیا وآخرت میں ذلت وخواری نصیب ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں