مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 613

دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے دلائل

راوی:

سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرقہ امامیہ کے لوگ (یا روافض واہل تشیع ) اگر صحابہ بالخصوص شیخین کو برا کہتے ہیں یا ان کی خلافت کے منکرہیں تو اس کی وجہ سے ان کو کس دلیل سے کافر قرار دیا جاتا ہے ؟ تو جاننا چاہیے کہ ان کے کفر کی ایک نہیں متعدد مضبوط دلائل وبراہین ہیں ، پہلی بات یہ کہ صحابہ کرام اور اصل حاملان وحی ، راویان قرآن اور ناقلان دین وشریعت ہیں جو شخص ان صحابہ کی حقانیت وصداقت کا منکر ہوگا کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ قرآن وغیرہ ایمانیات متواترات کے ساتھ اس کا ایمانی تعلق قائم ہو اور جب قرآن وغیرہ سے اس کا ایمانی تعلق قائم نہیں ہوگا تو اس کو مؤمن کون نادان کہے گا دوسرے یہکہ ان صحابہ کی حقانیت ، صداقت اور فضیلت کا شاہد خود قرآن کریم ہے، نص قرآن کا منکر مؤمن ہرگز نہیں ہوتا دوسرے یہ کہ وہ احادیث جن میں حضرت علی کے علاوہ تینوں خلفاء راشد کے فضائل ومناقب بھی منقول ہیں ، ان کی تعداد ان گنت ہے نیز وہ حدیثیں تعدد طرق اور کثرت روات کے سبب متواتر بالمعنی قرار پائی ہیں پس ان احادیث وروایات کے مفہوم و معنی اور مدلول ومضمون کا انکار کفر کے زمرہ میں آتا ہے اور یہ ذہن میں رہنی چاہئے کہ اس درجہ کی احادیث کے استنادواعتبار ائمہ مجتہدین میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا ہے بلکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ جو ائمہ مجتہدین میں نہایت اعلی مقام رکھتے ہیں " خبر واحد " کو بھی قیاس پر ترجیح دیتے ہیں یہاں تک کہ اقوال صحابہ کو بھی چہ جائیکہ متواتر بالمعنی کی حیثیت رکھنے والی احادیث ۔
آئیے سب سے پہلے قرآن کریم کو دیکھے کہ اللہ کے کلام سے ہمیں صحابہ کے بارے میں اور صحابہ یا کسی صحابی رسول کو برا کہنے اور لعنت کرنے والوں کے بارے میں کیا رہنمائی ملتی ہے :
(١) اللہ تعالیٰ نے صحابہ سے اپنا راضی ہونا اور خوش ہونا بیان فرمایا ہے ، جیساہ اس آیت کریمہ ہے :
( لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ) 48۔ الفتح : 18)
" بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں سے راضی وخوش ہوا جب کہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخت (سمرہ) نیچے بیعت کررہے تھے ۔
ایک اور موقع پر یوں فرمایا گیا :
والسابقون الاولون من المہٰجرین والانصار والانصار والذین اتبعوہم باحسان رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ ۔
" اور جو مہاجرین وانصار (ایمان لانے میں سب سے ) سابق اور مقدم ہیں اور (بقیہ امت میں ) جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی وخوش ہوا ۔"
پس اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں جن لوگوں کی تعریف کرے ، جن سے رضا مندی وخوشنودی ظاہر کرے اور جن کے بلند وبالا مقام ومرتبہ کو واضح فرمائے ان پر یہ لوگ (روافض وشیعہ ) لعنت کریں بلکہ ان کو غاصب اور کافر جانیں تو ان دونوں باتوں میں بالکل تضاد ہے لہذا یہ لوگ ان صحابہ کو برا کہہ کر اور ان کو لعنت کرکے چونکہ قرآن کی مخالفت کرتے ہیں اور قرآن کی مخالفت کرنے والا کافر ہوتا ہے اس لئے ان کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا ۔
(٢) خلفاء راشدین کی خلافت قرآن کریم سے ثابت ہے، بایں طور کہ ارشاد فرمایا گیا :
(وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ ) 24۔ النور : 55)
(اے اہل ایمان تم میں جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان سے اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ ان کو روئے زمین پر اقتدار وحکومت عطا فرمائے گا ۔" مستند و معتبر مفسرین نے وضاحت فرمائی ہے ۔ کہ آیت خلفاء راشدین کی خلافت کے مبنی پر صداقت و صحت ہونے کی واضح دلیل ہے کہ آیت میں مذکورہ وعدہ کے مطابق جن لوگوں کو روئے زمین پر حکومت واقتدار نصیب ہوا اور جو اس آیت کے مطابق ایمان وعمل صالح کے حامل تھے وہ یہی خلفائے راشدین ہیں ۔ پس جو لوگ ان کی خلافت کو صحیح اور برحق نہ مانیں وہ قرآن کریم کی تردید وتغلیظ کرنے کے سبب دائرہ ایمان سے خارج قرار پائیں گے ۔ کیونکہ اسی آیت میں آگے چل کر یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ (وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰ ى ِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ) 24۔ النور : 55)، یعنی : جنہوں نے کفر کیا (کہ اللہ کے اس وعدہ کو یاوعدہ کے ظہور کو برحق نہ جانا ) تو فاسق ہیں " اور چونکہ قرآن کی اصطلاح میں فاسق سے مراد " فاسق کامل " ہوتا ہے اور فاسق کامل کافر کو کہتے ہیں اس لئے وہ فاسق ہیں " کا مطلب یہ ہے کہ وہ کافر ہیں اس بات کی دلیل کہ قرآن کی اصطلاح میں فاسق سے مراد فاسق کامل ہوتا ہے ، یہ آیت ہے :
(وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰ ى ِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ) 5۔ المائدہ : 47)
(٣) قرآن کریم نے صحابہ کو صادق یعنی سچا کہا ہے جیسا کہ آیت میں مذکور ہے :
(لِلْفُقَرَا ءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا وَّيَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه اُولٰ ى ِكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ ) 59۔ الحشر : 8)
اور ان حاجت مند مہاجرین کا (بالخصوص) حق ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے (جبراًوظلماً) جدا کردئے گئے ، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل (یعنی جنت ) اور رضامندی کے طالب ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسول (کے دین ) کی مدد کرتے ہیں اور یہی لوگ سچے ہیں ۔"
تمام صحابہ حضرت صدیق اکبر کو " یا خلیفۃ اللہ " کہہ کرمخاطب کرتے تھے لیکن شیعہ ان کا کا ذب یعنی جھوٹا کہتے ہیں ظاہر ہے کہ صادق اور کا ذب کے درمیان صریح فرق ہے پس جو شخص ان کو کا ذب کہتا ہے وہ دراصل قرآن کریم کی تردید اور مخالفت کرتا ہے اور یہ کفر نہیں تو اور کیا ہے ۔
(٤) صحابہ کرام " فلاح یاب" ہیں اور ان کا " فلاح یاب " ہونا نص قرآن سے ثابت ہے کہ ان کے حق میں اولئک ہم المفلحون ( اور یہی لوگ فلاح یاب ہیں ) فرمایا گیا ہے پس جو لوگ اس نص قرآن کے خلاف ان کو یہ کہیں کہ اولیک ہم الخاسرون (یہی لوگ بے فلاح وناکام ہیں تو ان مخالفین قرآن کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کہا جائے گا تو اور کیا کہا جائے گا ۔
(٥) اللہ تعالیٰ نے کثرت سے اپنے کلام شریف میں ان صحابہ کی خوبیاں بیان فرمائی ہیں اور جابجا تعریف وتوصیف کے ساتھ ان کا ذکر کیا ہے مثلاً ایک موقع پرارشاد ہوا :
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (وَالَّذِيْنَ مَعَه اَشِدَّا ءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَا ءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ ٻوَمَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْ َه فَاٰزَرَه فَاسْتَغْلَ ظَ فَاسْتَوٰى عَلٰي سُوْقِه يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا) 48۔ الفتح : 29)
محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحبت یافتہ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں تیز اور آپس میں مہربان ہیں اے مخاطب تو ان کو دیکھے گا کہ کبھی رکوع کررہے کبھی سجدہ کررہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضا مندی کی جستجو میں لگے ہیں ان کے آثار بوجہ تاثیر سجدہ کے ان کے چہرون پر نمایاں ہیں یہ ان کے اصاف توریت میں ہیں اور انجیل میں ان کا یہ وصف ہے کہ جیسے کھیتی اس نے اپنی سوئی نکالی پھر اس نے اس کو قوی کیا پھر وہ اور موٹی ہوئی پھر اپنے سے پر سیدھی کھڑی ہوگئی کہ کسانوں کو بھلی معلوم ہونے لگی ۔ تاکہ ان سے کافروں کو غصہ دلائے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان صحابہ سے کہ جو ایمان لائے ہیں اور نیک کام کررہے ہیں مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے ۔"
پس ان لوگوں کے بارے میں کیا رائے قائم کی جاسکتی ہے جو قرآن کریم کی اتنی زبردست شہادت کے باوجود صحابہ رسول کو برا کہیں اور ان کو ملعون قرار دیں ۔ نیز اس آیت میں صحابہ کا جو وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ کفار کے مقابلہ میں توتیز وسخت ہیں لیکن آپس میں نرم ومہربان ہیں تو اس سے ثابت ہوا کہ جو شخص صحابہ کو آپس میں بے الفت وبے مہر اور ایک دوسرے سے دشمنی رکھنے والا جانے (جیسا کہ شیعوں کا کہنا ہے ) تو قرآن کا منکر ہے اسی طرح جو صحابہ سے بغض وحسد رکھے اور ان کے تئیں غیظ وغضب میں مبتلا ہو تو خود اس پر کفر کا اطلاق مذکور ہے کیونکہ لیغیظ بہم الکفار (تاکہ ان سے کافروں کو غصہ دلائے) کا واضح مطلب یہی ہے ۔ کہ صحابہ کے تئیں غیظ وغضب کا اظہار اور ان سے غصہ کرنا کافروں کا کام ہے اس آیت سے ان لوگوں کی بھی تردید وتغلط ہو جاتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں گو اچھے عقائد واعمال کے حامل تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بددین ہوگئے تھے ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ انہی کے لئے ہوتا ہے جو مرتے دم تک ایمان اور عمل صالح پر قائم رہیں ، ان صحابہ کے حق میں اس وعدے کانازل ہونا خود اس بات کی علامت تھا کہ (ان کو دم آخر تک ایمان اور عمل صالح کی توفیق حاصل رہے گی اب اگر کوئی شخص ان کے بارے میں ایسی بے تکی بات کہتا ہے تو نہ صرف یہ کہ وہ نص قرآن کے خلاف بات کہتا ہے بلکہ العیاذ باللہ ، حق تعالیٰ کی طرف جہل اور لاعلمی کی نسبت بھی کرتا ہے ۔
(٦) جس ہستی نے مخلفین اعراب (پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں ) کو جہاد کے لئے بلایا وہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ہیں اس بات پر نہ صرف یہ کہ تمام اہل سنت کا اتفاق ہے بلکہ خود شیعوں کو بھی انکار واختلاف کی گنجائش نہیں ہے ۔ مخلفین اعراب کے سلسلہ میں قرآن کریم نے جو یہ فرمایا تھا :
(قُلْ لِّ لْمُخَلَّفِيْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَ تُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ يُسْلِمُوْنَ فَاِنْ تُطِيْعُوْا يُؤْتِكُمُ اللّٰهُ اَجْرًا حَسَ نًا وَاِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُمْ مِّنْ قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِ يْمًا) 48۔ الفتح : 16)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں سے کہہ دیجئے کہ عنقریب تم لوگ ایسے لوگوں (سے لڑنے ) کی طرف بلائے جاؤ گے جو سخت لڑنے والے ہوں گے کہ یا تو ان سے لڑتے رہویا وہ مسلمان ہوجائیں سو اگر تم اطاعت کروگے تو تم کو اللہ تعالیٰ نیک عوض (یعنی جنت ) دے گا اور اگر تم روگردانی کروگے جیسا کہ اس سے قبل روگردانی کرچکے ہو تودرد ناک عذاب کی سزا دے گا ۔"
تو اس آیت میں مذکورپیشین گوئی کے مطابق ان مخلفین اعراب کو دشمنان اسلام کے مقابلہ پر لڑنے کے لئے حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے زمانہ خلافت میں بلایا بایں اعتبار اس آیت سے نہ صرف یہ کہ حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت ثابت ہوتی ہے جیسا کہ ابن ابی حاتم ، ابن قتیبہ ، شیخ ابوالحسن اور امام ابوالعباس وغیرہم نے وضاحت کی ہے بلکہ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے جیسا کہ جہاد کے لئے ان کے بلاوے سے روگردانی کرنے والا عذاب الیم کامستوجب ہوگا پس جس ہستی کے بارے میں قرآن کریم سے اتنی بڑی بات ثابت ہوتی ہو اس پر لعنت کرنے والوں اور اس کو کافر کہنے والوں کو اپنے حشر سے ڈرنا چاہیے ۔
(٧) ان صحابہ کا جنتی ہونا نصوص قطعیہ سے ثابت ہے جیسا کہ ایک موقع پر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے :
( لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ اُولٰ ى ِكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى) 57۔ الحدید : 10)
" تم میں سے جو لوگ فتح مکہ سے پہلے (فی سبیل اللہ ) خرچ کرچکے اور لڑچکے برابر نہیں ، وہ لوگ درجہ میں ان لوگوں سے بڑے ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد میں خرچ کیا اور لڑے اور (ویسے تو) اللہ تعالیٰ نے بھلائی (یعنی جنت ) کا وعدہ سب سے کر رکھا ہے ۔" پس ان صحابہ کے جنتی ہونے کا انکار نصوص کے انکار کو مستلزم ہے اور یہ کفر ہے
(٨) اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کی شان میں قرآن کریم میں یوں فرمایا ہے :
(ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِه لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا) 9۔ التوبہ : 40)
(مکہ سے مدینہ کو ہجرت کے موقع پر ) دو آدمیوں میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جس وقت کہ دونوں (ثور) غار میں تھے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں سے فرما رہے تھے تم غم نہ کرو یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔"
اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں جس ہستی کا ذکر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اور جاں نثار کی حیثیت سے کرے ، اس کو برا کہنے والوں کا انجام کیا ہوگا اس کا اندازہ خود لگا لینا چاہئے ۔
(٩) قرآن کریم کی اس آیت :
(وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ) 24۔ النور : 22)
" اور جو لوگ تم میں (دینی ) بزرگی والے اور (دنیاوی ) وسعت والے ہیں ۔"
میں جس ہستی کی طرف اشارہ مقصود ہے وہ حضرت ابوبکر کی ذات ہے جیسا کہ محقق مفسرین اور علماء اسلام نے وضاحت کی ہے پس ان کے " فضل " کا انکار کرنا قرآن کریم کاصریح رد کرنا ہے ۔
(١٠) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(وَسَيُجَنَّبُهَا الْاَتْقَى 17 الَّذِيْ يُؤْتِيْ مَالَه يَتَزَكّٰى 18 وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَه مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰ ى 19 اِلَّا ابْتِغَا ءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰى 20 وَلَسَوْفَ يَرْضٰى 21 ) 92۔ الیل : 17 تا 21)
" اور اس (دوزخ سے ایسا شخص دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیزگار ہے ، جو اپنا مال (محض) اس غرض سے دیتا ہے کہ (گناہوں سے ) پاک ہوجائے اور بخیر اپنے علیشان پروردگار کی رضا جوئی کے اس کے ذمہ کسی نہ تھا اس کا بدلہ اتارنا مقصود ہوتا اور یہ شخص عنقریب خوش ہوجائے گا (یعنی آخرت میں ایسی ایسی نعمتیں ملیں گی)۔"
یہ آیتیں بھی حضرت ابوبکر صدیق کی شان میں ہیں حضرت علی کی شان میں نہیں ہوسکتیں ، چنانچہ ماہرین تفسرین نے اسی حقیقت کے پیش نظر ان آیتوں کا محمول ومدلول حضرت ابوبکر قرار دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ آیتوں کا شان نزول حضرت ابوبکر صدیق کا واقعہ ہے کہ انہوں نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے بڑی مقدار میں اپنا مال خرچ کرکے حضرت بلال وغیرہ کو کافروں سے خریدا اور آزاد کردیا پس جس شخص کو اللہ تعالیٰ 'بڑا پرہیزگار " بتائے وہ رحمت ورضوان کا مستحق ہوگا یا لعنت وخذلان کا مستوجب ؟ اب صحیح احادیث کو دیکھنا چاہیے کہ ان سے کیا ثابت ہوتا ہے ، روافض کا کفر یا ایمان ؟ واضح رہے کہ یہاں چند ہی احادیث پراکتفا کیا جائے گا جب کہ اس سلسلہ میں بے شمار حدیثیں منقول ہیں :
عن عوبمر ابن ساعدۃ انہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ان اللہ اختارلی واختارلی اصحابا فجعل لی منہم وزراء وانصار ا واصہارا فمن سبہم فعلیہم لعنۃ اللہ والملئکۃ والناس اجمعین ولایقبل اللہ منہ صرفا ولا عدلا ۔ (محاملی ، طبرانی ، حاکم : )
" عویمر ابن ساعدہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اللہ تعالیٰ نے مجھے منتخب فرمایا اور میرے لئے رفقاء اور ساتھی بھی منتخب فرمائے اور پھر ان رفقاء میں سے کچھ کو میرا وزیر، کچھ کو میرا مدد گار اور کچھ کو میرا رشتہ دار بنایا پس جس شخص نے ان کو برا کہا اس پر اللہ کی لعنت ، فرشتوں ، کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت ، اللہ تعالیٰ نہ تو اس کی توبہ قبول کرے گا اور نہ اس کا فدیہ یا یہ کہ نہ نفل اس کا مقبول ہوگا نہ فرض ۔"
عن علی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال سیاتی من بعدی قوم یقال لہم الرفضۃ فان ادرکتہم فاقتلہم فانہم مشر کون قال قلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما العلامۃ فیہم قال یفرطونک بما لیس فیک ویطعنون علی السلف (دارقطنی ۔)
حضرت علی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عنقریب میرے بعد ایک گروہ پیدا ہوگا جن کو " رافضی" کہا جائے گا پس اگر تم ان کو پاؤ تو ان کو قتل کرنا کیونکہ وہ مشرک ہونگے حضرت علی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ان کی پہچان کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " وہ لوگ تمہیں ان چیزوں کے ذریعہ نہایت اونچا دکھائیں گے جو تم میں نہیں ہوں گی اور صحابہ پر لعن طعن کریں گے ، اور دارقطنی ہی کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ۔"
وذلک یسبون ابابکر وعمر ومن سب اصحابی فعلیہ لعنت اللہ والملئکۃ والناس ۔"
اور ان لوگوں کو مشرک کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ابوبکر صدیق کو برا کہیں گے اور جس شخص نے میرے صحابہ کو برا کہا اس پر اللہ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور لوگوں کی لعنت ۔"
اسی طرح کی روایت حضرت انس ، حضرت عیاض انصاری ، حضرت جابر ، حضرت حسن ابن علی ، حضرت ابن عباس ، حضرت فاطمہ زہرا ، اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی منقول ہے اور یہ بھی آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من ابغضہم فقد ابغضنی ومن اذا ہم فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی اللہ ۔
" جس شخص نے صحابہ کودشمن رکھا اس نے درحقیقت مجھ دشمن رکھا ، اور جس نے ان کو ایذاپہنچائی اس نے درحقیقت مجھ کو ایذاء پہنچائی اور جس اس نے درحقیقت اللہ ایذاء پہنچائی ۔"
ابن عساکر نے یہ حدیث نقل کی ہے کی : ۔
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال حب ابی بکر وعمر ایمان وبغضہما کفر ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکروعمر کو دوست ومحبوب رکھنا ایمان ہے اور ان دونوں سے بغض وعناد رکھنا کفر ہے۔"
عبداللہ ابن احمد نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ :
انی لارجولامتی فی حبہم لابی بکر وعمر ماارجولہم فی قول لاالہ الا اللہ ۔"
" بلاشبہ میں اپنی امت کے لئے ، ان کی اس محبت کے عوض کہ جو وہ ابوبکروعمر کے تئیں رکھیں گے ، اس چیز کی امید رکھتا ہوں جو ان کے لئے کلمہ لاالہ الا اللہ کے عوض مقرر ہے ۔"
نیز محبت اور بغض کے درمیان چونکہ تناقض ہے اس لئے جب ابوبکر وعمر سے محبت رکھنے کا یہ حال معلوم ہوا کہ اس کا اجرسلامتی ایمان اور دنیا وآخرت میں فلاح وکامرانی کی صورت میں ہے تو منطقی طور پر یہ نتیجہ نکلا کہ ان سے بغض ونفرت رکھنا کفر اور اس کا انجام دنیا وآخرت میں ذلت وتباہی کی صورت میں ہے ۔
ان حادیث کے بعد اب یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس بارہ میں ائمہ دین اور رہنمایان شریعت کے ارشادات واقوال کیا ہیں پہلے اس اصول کو ذہن میں رکھ لینا چاہئے کہ تکفیر مؤمنین یعنی کسی مؤمن ومسلمان کو کافر کہنا بجائے خودکفر ہے کیونکہ صحیح حدیث میں منقول ہے کہ جو شخص کسی کو کافر کہے یا عدو اللہ (اللہ کا دشمن) کہے اور حقیقت میں وہ ایسا نہ ہو تو کفر لوٹ کر خود کہنے والے پر آجاتا ہے پس صحابہ کا مومن ومسلمان ہونا چونکہ قطعی ہے اس لئے جو شخص ان کو کافر کہے گا وہ کفر خود اسی پر لوٹ جائے گا یہاں یہ بات ذکر کردینا موزوں ہے کہ روافض نہ صرف یہ کہ تکفیر صحابہ اور غذف عائشہ صدیقہ کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ ان دونوں چیزوں کو ، کہ جو اعظم موجبات کفر میں سے ہیں ، ترقی درجات کا سبب بھی مانتے ہیں حالانکہ یہ سب کے نزدیک مسلمہ ہے کہ محض استحلال معصیت ہی کفر ہے چہ جائیکہ کفر کو ترقی درجات کا موجب مانا جائے ۔
امام ابوزرعہ نے جو امام مسلم کے جلیل القدر شیوخ میں سے ہیں کہا ہے کہ اگر کوئی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کی تنقیض وتوہین کرے تو بلاشبہ وہ زندیق ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن حق ہے اور رسول جو کچھ (دین وشریعت ) لے کر آئے وہ حق ہے نیز ان سب (قرآن اور دین وشریعت ) کو نقل اور ہدایت کے ذریعہ ہم تک پہنچانے والے ان صحابہ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے پس جس شخص نے ان صحابہ میں عیب ونقص نکالا اس نے دراصل کتاب وسنت کو باطل اور لغو قرار دینے کا ارادہ کیا ۔ اس اعتبار سے سب سے بڑا عیب دار اور ناقص خود وہی شخص قرار پائے گا اور اس پر زندقہ وضلالت کا حکم راست ودرست آئے گا ۔
حضرت سہل ابن عبداللہ تستری کا قول ہے، اس شخص کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والا ہرگز نہیں کہا جا سکتا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی تو قیر نہ کی ۔
محیط میں حضرت امام محمد رحمتہ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ رافضیوں کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کے منکر ہیں ۔
خلاصہ میں لکھا ہے : من انکرخلافۃ الصدیق فہو کافر یعنی جس شخص نے ابوبکر صدیق کی خلافت کا انکار کیا وہ کافر ہیں مرغینانی میں مذکور ہے اہل ہواء اور مبتدعین کے پیچھے نماز مکروہ ہے جب کہ رافضیوں کے پیچھے ناجائز ہے ۔
قاضی نے شفاء میں لکھا ہے کہ حضرت ابن انس وغیرہ کا قول ہے :
من ابغض الصحابۃ وسبہم فلیس لہ فی المسلمین حق ۔
" جس شخص نے صحابہ سے بغض رکھا اور ان کو براکہا اس کا مسلمانوں کے مال فے میں کوئی حق نہیں۔"
انہی کا یہ قول بھی ہے کہ :
من غاظہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فہو کافر قال اللہ تعالیٰ (لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ) 48۔ الفتح : 29)
" جس شخص نے اصحاب محمد کے تئیں بغض وغصہ رکھا ، وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد " تاکہ ان سے کافروں کو غصہ دلائے " کے بموجب کافر ہے۔"
قاضی ابوبکر باقلانی نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے اور بیہقی نے امام اعظم ابوحنیفہ سے بھی ایسا ہی قول نقل کیا ہے بلکہ فقہائے حنفیہ نے شیعوں کو جو کافر کہا ہے اس کی بنیاد حضرت امام اعظم ہی کا قول ہے یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ شیعوں اور رافضیوں کے معتقدات کوسب سے زیادہ جاننے والے حضرت امام اعظم ہی ہیں کیونکہ وہ کوفی ہے اور رفض وتشیع کا اصل منبع ومرکز کوفہ ہی رہاہے ۔ پس اگر امام اعظم نے خلافت صدیق کے منکر کی تکفیر کی ہے تو حضرت ابوبکر صدیق وحضرت عمر فاروق یا کسی بھی صحابی کو لعنت کرنے والا ان کے نزدیک بدرجہ اولی کافر ہوگا ۔
حضرت امام مالک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کو بھی مثلا حضرت ابوبکر کو یا حضرت عمر کو اور یا حضرت عثمان کو برا کہنے والے کے بارہ میں حکم بیان کرتے ہوئے یوں فرمایا ہے کہ :
فان قال کانوا علی ضلال اوکفر قتل ۔
" اگر وہ شخص یہ کہے کہ وہ (صحابہ ) گمراہ تھے یا کافر تھے تو اس شخص کو قتل کیا جائے ۔"
حضرت امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے قول وارشادات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی روافض کے ارتداد کے قائل تھے ، بہرحال روافض کے کفر کی یہ چند دلیلیں ہیں ، اگرچہ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں درازگی کے خوف سے انہی چند دلائل کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے اور وہ بھی اس لئے کہ عام مسلمان بھائی شک وشبہ کا شکار نہ رہیں ان کو صحابہ کی عظمت اور ان کو برا کہنے والوں کی برائی معلوم ہوجائے ۔ رافضیوں کے فریب سے ہوشیار رہیں ، اپنا عقیدہ خراب نہ کریں ، ان کے میل جول سے اجتناب کریں اور ان کے ساتھ رشتہ ناطہ جوڑنے سے بھی باز رہیں ، اور اگر صحابہ کے فضائل ومناقب سے متعلق ان آیات واحادیث کو دیکھ کر شاید کسی شیعہ کو توفیق الہٰی نصیب ہوجائے تو وہ توبہ کرکے اپنی عاقبت درست کرلے ۔

یہ حدیث شیئر کریں