مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ ابن صیاد کے قصہ کا بیان ۔ حدیث 62

ابن صیاد کے ساتھ ایک واقعہ

راوی:

عن عبد الله بن عمر أن عمر بن الخطاب انطلق مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في رهط من أصحابه قبل ابن الصياد حتى وجدوه يلعب مع الصبيان في أطم بني مغالة وقد قارب ابن صياد يومئذ الحلم فلم يشعر حتى ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم ظهره بيده ثم قال أتشهد أني رسول الله ؟ فقال أشهد أنك رسول الأميين . ثم قال ابن صياد أتشهد أني رسول الله ؟ فرصه النبي صلى الله عليه وسلم ثم قال آمنت بالله وبرسله ثم قال لابن صياد ماذا ترى ؟ قال يأتيني صادق وكاذب . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم خلط عليك الأمر . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إني خبأت لك خبيئا وخبأ له ( يوم تأتي السماء بدخان مبين )
فقال هو الدخ . فقال اخسأ فلن تعدو قدرك . قال عمر يا رسول الله أتأذن لي في أن أضرب عنقه ؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن يكن هو لا تسلط عليه وإن لم يكن هو فلا خير لك في قتله . قال ابن عمر انطلق بعد ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بن كعب الأنصاري يؤمان النخل التي فيها ابن صياد فطفق رسول الله صلى الله عليه وسلم يتقي بجذوع النخل وهو يختل أن يسمع من ابن صياد شيئا قبل أن يراه وابن صياد مضطجع على فراشه في قطيفة له فيها زمزمة فرأت أم ابن صياد النبي صلى الله عليه وسلم وهو يتقي بجذوع النخل . فقالت أي صاف وهو اسمه هذا محمد . فتناهى ابن صياد . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لو تركته بين . قال عبد الله بن عمر قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس فأثنى على الله بما هو أهله ثم ذكر الدجال فقال إني أنذركموه وما من نبي إلا وقد أنذر قومه لقد أنذر نوح قومه ولكني سأقول لكم فيه قولا لم يقله نبي لقومه تعلمون أنه أعور وأن الله ليس بأعور . متفق عليه .

" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ( ایک دن ) حضرت عمر فاروق ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابہ کرام کی ایک جماعت میں شامل ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابن صیاد کے پاس گئے اور انہوں نے اس کو ( یہودیوں کے ایک قبیلہ ) بنو مغالہ کے محل میں بچوں کے ساتھ کھیلتا ہوا پایا ، وہ اس وقت سن بلوغ کے قریب ہو چکا تھا ، ابن صیاد ان سب کی آمد سے بے خبر ( اپنے کھیل میں مصروف ) رہا یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پشت پر ہاتھ مارا اور ( جب وہ متوجہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس سے سوال کیا کہ کیا تو اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ ابن صیاد نے ( یہ سن کر بڑی غصیلی نظروں سے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم امیوں یعنی ناخواندہ لوگوں کے رسول ہو اور پھر اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو (پکڑ لیا ) اور خوب زور سے بھینچا اور فرمایا " میں اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا " اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ ( اچھا یہ بتا ) تو کیا دیکھتا ہے یعنی غیب کی چیزوں سے تجھ پر کیا منکشف ہوتا ہے ؟ اس نے جواب دیا کبھی تو میرے پاس سچی خبر آتی ہے اور کبھی تو میرے پاس سچا فرشتہ آتا ہے اور کبھی جھوٹا شیطان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا یہ جواب سن کر ) فرمایا کہ تیرا معاملہ سب گڈمڈ ہو گیا " پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تیرے لئے اپنے دل میں ایک بات چھپائی ہے اور جو بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کے لئے چھپائی تھی وہ یہ آیت (فَارْتَ قِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَا ءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ ) 44۔ الدخان : 10) تھی اس نے جواب دیا کہ وہ پوشیدہ بات ( جو تمہارے دل میں سے ) " دخ " ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یہ سن کر ) فرمایا دور ہٹ ! تو اپنی اوقات سے آگے ہرگز نہیں بڑھ سکے گا " حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ( یہ صورت حال دیکھ کر ) عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابن صیاد اگر وہی دجال ہے ( جس کے آخر زمانہ میں نکلنے کی اطلاع دی گئی ہے ) تو پھر تم اس پر مسلط نہیں ہو سکو گے یعنی اس کو قتل کرنے پر قادر نہیں ہو سکو گے کیونکہ اس کو قتل کرنا تو صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے مقدر ہے ) اور اگر یہ وہ نہیں ہے تو پھر اس کو قتل کرنے میں تمہارے لئے کوئی بھلائی نہیں ) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ( ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے ان درختوں کے پاس تشریف لے گئے جہاں ابن صیاد تھا اس وقت آپ کے ساتھ حضرت ابی ابن کعب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( وہاں پہنچ کر ) کھجور کی شاخوں کے پیچھے چھپنے لگے تا ابن صیاد ( اپنے قریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی سے ) بے خبر رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے دیکھنے سے پہلے اس کی کچھ باتیں سن لیں اور اس طرح چھپ کر ابن صیاد کی باتوں کو سننے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اور صحابہ کرام بھی جان لیں کہ وہ آخر ہے کیا آیا کوئی کاہن ہے یا جادوگر یا کچھ اور ؟ اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص سے فتنہ پردازی کا خوف ہو اس کی حقیقت کو ظاہر کرنا اور لوگوں پر اس کے احوال منکشف کرنا جائز ہے ) اس وقت ابن صیاد ایک چادر میں لپٹا ہوا لیٹا تھا اور اس چادر کے اندر سے گنگنانے کی آواز آرہی تھی ( جس کا کوئی مفہوم سمجھ میں آتا تھا ) ( دیکھ کر ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( صحابہ سے ) فرمایا ۔ " اگر ابن صیاد کی ماں اس کو نہ ٹوکتی ( اور میری موجودگی سے باخبر نہ کرتی ) وہ اپنی حقیقت کو ظاہر کر دیتا ( یعنی اس کی باتوں سے یہ معلوم ہو جاتا وہ کون ہے اور کیا ہے ) حضرت عبداللہ ( ابن عمر کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( خطبہ دینے کے لئے ) لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے تو پہلے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی جو اس کو سزاوار ہے ، پھر دجال کا ذکر کیا ( بایں احتمال کہ شاید ابن صیاد دجال ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی فتنہ پردازی اور اس حقیقت کے پیش نظر کہ اس میں دجال کی بعض خصلیتں پائی جاتی تھیں دجال کا ذکر کرنا اور اس کے احوال سے آگاہ کرنا مناسب جانا ) اور فرمایا میں تمہیں دجال سے ڈراتا ہوں ، اور نوح علیہ السلام کے بعد کوئی نبی علیہ السلام ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو دجال سے نہ ڈرایا ہو اور ( ان انبیاء سے پہلے ) نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا ہے لیکن میں تم سے دجال کے بارے میں ایک ایسی بات اور ایک ایسی علامت بتاتا ہوں جو کسی اور نبی علیہ السلام نے اپنی قوم سے نہیں بتائی ہے ، سو تم جان لو کہ دجال کا نا ہوگا اور یقینا اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے ۔ " ( بخاری ومسلم )

تشریح :
امیوں " سے اس کی مراد اہل عرب تھے، کیوکہ اس زمانہ میں اکثر اہل عرب پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے ! اور اصل بات یہ ہے کہ یہودیوں میں سے ایک طبقہ کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے منکر تو نہیں تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف اہل عرب کا رسول مانتے تھے بہر حال یہ بات ( یعنی ابن صیاد کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی اس طرح دینا ) اس کی ان لغو باطل باتوں میں سے ایک تھی جو شیطان کاہنوں کو القا کیا کرتا ہے ، ویسے منطقی طور پر بھی اس کے یہ الفاظ زبردست تضاد وتناقض کے حامل تھے کیونکہ نبی ہر حال میں سچا ہوتا ہے خواہ وہ کسی ایک قوم وعلاقہ میں مبعوث ہوا ہو یا پوری نوع انسانیت کے لئے ) اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت عامہ کا اعلان کیا ۔ اور تمام نوع انسان کو اپنی رسالت کی دعوت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو صرف اہل عرب کے ساتھ مخصوص کرنا سراسر باطل ٹھہرا " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو خوب زور سے بھینچا " میں بھینچا " لفظ رص کا ترجمہ ہے جو ر کے زبر اور ص کے ساتھ ہے اور جس کے اصل معنی " دو چیزوں کو استوار کرنا اور آپس میں ایک دوسرے سے جوڑنا ملانا " ہے " اسی لئے مضبوط اور استوار بنیاد کو بنائے مرصوص کہا جاتا ہے حاصل یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کو پکڑ کر اور اس کے اعضاء جسم کو ایک دوسرے سے ملا کر زور سے بھینچا اور علامہ نووی نے یہ لکھا ہے کہ ہمارے علاقہ میں کتاب کے جو صحیح نسخے ہیں ان میں یہ لفظ فرفضہ یعنی ف اور ض کے ساتھ ہے ، جو رفض سے ہے اور جس کے معنی " چھوڑنے " کے ہیں اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سوال وجواب اور اس کی کٹ حجتی سے صرف نظر کر لیا ۔
میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا کا مطلب یہ تھا کہ میں یقینا اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور نبیوں پر ایمان لایا ہوں اور یہ بھی یقینی ہے کہ تو ان میں سے نہیں ) ہاں اگر بفرض محال تو بھی ان میں سے ہوتا تو میں تجھ پر بھی ایمان لاتا ! لیکن یہ فرض کرنے والی بات اسی صورت میں جائز ہوگی جب یہ کہا جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اپنے خاتم النبیین ہونے کے علم سے پہلے کہی تھی، اگر اس وقت آپ کا خاتم النبیین ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں تھا تو یہ بفرض محال والی بات مراد نہیں لی جاسکتی اس مسئلہ کی نزاکت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص نبوت کا دعوی کرے اور کوئی اور شخص اس سے معجزہ کا مطالبہ کرنے کے باوجود اس کو اس لئے قتل نہیں کیا کہ اول تو وہ بہت چھوٹی عمر کا تھا اور چھوٹی عمر والوں کو قتل کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ممنوع تھا، دوسرے یہ کہ یہودی ان دنوں ذمی تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے اس بات پر صلح کر رکھی تھی کہ ان کے حال پر رہنے دیا جائے گا ، اور ظاہر ہے کہ ابن صیاد بھی یہودیوں ہی کا ایک فرد تھا ان کے خلیفوں میں سے تھا ، اس لئے اس کو قتل نہیں کیا جا سکتا تھا ۔
" کبھی تو میرے پاس سچی خبر آتی اور کبھی جھوٹی خبر ۔ " کے بارے میں بعض شارحین نے کہا ہے کہ ابن صیاد سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کا حاصل یہ تھا کہ جو شخص تیرے پاس آتا ہے وہ تجھ سے کیا کہتا ہے اور اس کی کہی ہوئی باتیں تیرے لئے کیسی ثابت ہوئی ہیں ؟ ابن صیاد نے مذکورہ جملہ کے ذریعہ اس سوال کا جواب دیا اس کا حاصل یہ تھا کہ ایک آنے والا مجھے کچھ باتیں بتاتا جاتا ہے، ان میں سے کوئی سچی ہو جاتی ہے اور کوئی جھوٹی چنانچہ کاہنوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ شیطان ان پر جھوٹی سچی ، ہر طرح کی خبریں القا کرتا ہے ۔
" تیرا معاملہ سب گڈمڈ ہو گیا " مطلب یا تو یہ تھا کہ تیرے پاس چیزوں اور اطلاعات کا تو ذخیرہ ہے وہ سب بیکار اور لاحصل ہے کیونکہ ان میں سے سچی باتیں بھی جھوٹی باتوں کے ساتھ مل کر کرنا قابل اعتبار ہوگئی ہیں یا یہ مطلب تھا کہ تیری حیثیت اور تیرے احوال کو نا قابل اعتماد بنا دیا گیا ہے کیونکہ تیرے پاس تو شیطان آتا ہے جو تجھے جھوٹی سچی خبریں سنا جاتا ہے اس بات کے ذریعہ گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دعویٰ رسالت کو جھوٹا قرار دیا کیونکہ کسی رسول کے پاس جھوٹی خبریں نہیں آیا کرتیں جب کہ اس نے خود اپنی زبان سے اس کا اقرار کیا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر دیا کہ تو صرف کاہن ہے اور کاہنوں کا یہی حال ہوا کرتا ہے ۔ تو رسول و نبی ہرگز نہیں ہوسکتا ۔
" میں نے تیرے لئے دل میں ایک بات چھپائی ہے " یعنی تجھے اگر یہ دعوی ہے کہ تجھ پر خدائی راز تک منکشف ہو جاتے ہیں اور کوئی شخص آکر تجھے غیب کی باتیں بتا کر جاتا ہے تو ذرا یہ بتا کہ اس وقت میرے دل میں کیا ہے ، میں نے تیرے تعلق سے ایک بات اپنے دل میں رکھی ہے ؟ اس بات کے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کا امتحان لیا تاکہ صحابہ کرام پر اس کی حقیقت واضح ہو جائے اور وہ جان لیں کہ یہ نرا کاہن ہے شیطان اس کے پاس آکر اس کو جھوٹی سچی باتیں سکھا جاتا ہے ۔
" وہ پوشیدہ بات دخ ہے " د کے پیش اور زبر کے اور خ کے تشدید کی ساتھ دخ " کے معنی دھوئیں کے ہیں ! ابن صیاد اس پوری آیت کو تو بتانے میں کامیاب نہیں ہوسکا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل میں سوچ رکھی تھی ، البتہ اس نے اس آیت کا ایک ناقص لفظ ضرور بتا دیا اس بات سے بھی اس کا کاہن ہونا ثابت ہو گیا کیونکہ کہانت میں یہی ہوتا ہے کہ شیطان کسی بات کا کوئی ایک ادھورا اور ناقص جز اڑا کر لے آتا ہے اور اس کو کاہنوں کے دل میں ڈال دیتا ہے اور یہ احتمال بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت آہستہ سے صحابہ کو بتایا ہو کہ میں نے یہ آیت اپنے دل میں سوچی ہے اور شیطان نے بھی یہ بات سن لی ہو اور پھر اس نے ابن صیاد کو اس کا القا کر دیا ہو ۔
" دور ہٹ تو اپنی اوقات سے آگے ہرگز نہیں بڑھ سکتا " " دور ہٹ " لفظ اخساء کا ترجمہ ہے جس کے ذریعہ اہانت وحقارت کا اظہار کیا جاتا ہے اور عام طور پر کتے اور سور کے لئے اس کا استعمال ہوتا ہے کہ کسی کتے اور سور کو ہانکنے اور لوگوں سے دور ہٹانے کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے بہر حال جب ابن صیاد کی حقیقت واضح ہوگئی کہ اس کا حال وہی ہے جو کاہنوں کا ہوتا ہے کہ وہ شیطان کے القا کرنے کے سبب کچھ ادھوری باتیں معلوم ہوگئیں ، تو بس کاہن ہی ہے اور کاہن ہی رہے گا اس سے آگے تو ہرگز نہیں بڑھ سکتا، اپنی حد میں رہنا اور آئندہ رسالت کا دعوی کرنے کی جرأت نہ کرنا کہ وہ میرا مقام ہے ۔
" اس کو قتل کرنے میں تمہارے کوئی بھلائی نہیں ہے " کا مطلب یہ تھا کہ یہ چونکہ ذمی ہے اور ان یہودیوں میں سے ہے جو اہل ذمہ ہیں ، علاوہ ازیں ایک نابالغ اور چھوٹی عمر کا بھی ہے اس لئے اس کو قتل کرنا کوئی فائدہ کی بات نہیں ہے چونکہ بعض قرائن ابن صیاد کے دجال ہونے پر دلالت کرتے تھے اس لئے آپ نے بطور شک یہ بات ارشاد فرمائی " کہ یہ واقعی دجال ہے تو تم اس کو قتل کرنے پر قادر نہیں ہو سکو گے اور اگر یہ دجال نہیں ہے تو پھر اس کو قتل کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے ۔
اور یقینا اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے " یعنی وہ دوسرے سے حاسہ بینائی ہی سے پاک ومنزہ ہے چہ جائیکہ اس کی ذات میں کانے پن جیسا کوئی عیب ہو واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ کسی نبی نے اپنی قوم کو یہ نہیں بتایا کہ دجال کانا ہے تو اس بارے میں یہ احتمال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور نبی کو دجال کے احوال کا اتنا تفصیلی علم ہی نہیں تھا کہ دجال کانا ہوگا یا کیسا ہوگا ؟ یا یہ کہ یہ علم تو ہر نبی کو ہوگا مگر کسی نے اپنی قوم کو یہ نہیں بتایا کہ دجال کانا ہوگا ۔

یہ حدیث شیئر کریں