مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حضرت ابوبکر کے مناقب وفضائل کا بیان ۔ حدیث 627

حضرت ابوبکر کے حق میں خلافت کی وصیت

راوی:

وعن عائشة قالت : قال لي رسول الله صلى الله عليه و سلم في مرضه : ادعي لي أبا بكر أباك وأخاك حتى أكتب كتابا فإني أخاف أن يتمنى متمن ويقول قائل : أنا ولا ويأبى الله والمؤمنون إلا أبا بكر " . رواه مسلم وفي " كتاب الحميدي " : " أنا أولى " بدل " أنا ولا "

اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں (ایک دن ) مجھ سے فرمایا کہ اپنے باپ ابوبکر اور اپنے بھائی (عبد الرحمن ) کو میرے پاس بلوا لو کہ میں ایک تحریر لکھوا دوں دراصل مجھ کو اندیشہ ہے کہ (اگر میں نے ابوبکر کی خلافت کے بارے میں نہ لکھوایا تو ) کہیں خلافت کی کوئی آرزو نہ کرے ، اور کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ (خلافت کا مستحق ) میں ہوں حالانکہ (ابوبکر کی موجود گی میں کوئی بھی شخص خلافت کا مستحق نہیں ہوسکتا ) ابوبکر کے علاوہ کسی کی خلافت کو نہ اللہ چاہے گا اور نہ اہل ایمان تسلیم کریں گے ، (مسلم ) اور کتاب حمیدی میں انا ولا کے بجائے انا اولی (خلافت کا سب سے بڑا مستحق میں ہوں ) کے الفاظ ہیں۔"

تشریح :
طیبی نے قاضی عیاض کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یہ روایت " اجود" ہے اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے۔ رہا روافض کا یہ کہنا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت پر نص وارد ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے استحقاق خلافت کی وصیت کی تھی تو یہ بالکل بے اصل بات ہے اور ایک لغو وباطل دعویٰ ہے تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں نہ کوئی نص وارد ہے اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی زبانی یا تحریری وصیت کی تھی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس دعویٰ کی سب سے پہلی تردید خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے ہوئی تھی ۔ جب کسی نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو قرآن میں موجود نہیں ہے ؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جواب دیا : نہیں میرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ وہی ہے جو اس صحیفہ میں موجود ہے ، اگر ان کے پاس کوئی نص موجود ہوتی تو وہ یقینا اس کو ظاہر کرتے ۔

یہ حدیث شیئر کریں