مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ ابن صیاد کے قصہ کا بیان ۔ حدیث 65

دجال کے بارے میں ایک پیش گوئی

راوی:

وعن نافع قال لقي ابن عمر ابن صياد في بعض طرق المدينة فقال له قولا أغضبه فانتفخ حتى ملأ السكة . فدخل ابن عمر على حفصة وقد بلغها فقالت له رحمك الله ما أردت من ابن صياد ؟ أما علمت أن رسول الله عليه وسلم قال إنما يخرج من غضبة يغضبها . رواه مسلم .

" اور حضرت نافع کہتے ہیں کہ ( ایک دن ) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات مدینہ کے ایک راستہ میں ابن صیاد سے ہوگئی تو انہوں نے اس سے ایک ایسی بات کہہ دی جس سے وہ غضبناک ہو گیا اور جوش و غضب سے اس کی رگیں پھول گئیں اس کے بعد جب ابن عمر ( اپنی بہن ) ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں گئے ، جن کو اس واقعہ کی خبر پہنچ چکی تھی ، تو انہوں نے فرمایا ۔ ابن عمر ! اللہ تم پر اپنی رحمت نازل کرے ، تم نے ابن صیاد سے کیا چاہا تھا ( کہ اس کو اس قدر غضبناک کر دیا ) کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ دجال کسی بات پر غضبناک ہو کر نکل پڑے گا ۔ " (مسلم )

تشریح :
یعنی دجال کسی بات پر غصہ ہوگا اور وہ غصہ اس کو اتنا مشتعل کرے گا کہ وہ نکل پڑے گا اور یکدم نبوت یا خدائی کا دعوی کر بیٹھے گا پس اے ابن عمر ! تم ابن صیاد کو غضبناک ومشتعل نہ کرو اور اس سے کوئی بات نہ کرو تاکہ وہ خروج نہ کرے اور دنیا والے اس کی فتنہ پردازی سے محفوظ رہیں حضرت حفصہ نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو اس طرح منع کیا تو بظاہر اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ انہوں نے سوچا کہ شاید این صیاد ہی دجال ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق کہیں ابن عمر ہی اس کے خروج کا ظاہری سبب نہ بن جائیں، بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس کے دجال ہونے کا یقین رکھتی ہوں ۔

یہ حدیث شیئر کریں