مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 674

وزراء رسالت

راوی:

وعن أبي سعيد الخدري قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ما من نبي إلا وله وزيران من أهل السماء ووزيران من أهل الأرض فأما وزيراي من أهل السماء فجبريل وميكائيل وأما وزيراي من أهل الأرض فأبو بكر وعمر " . رواه الترمذي إن سلم من عنعنة الحسن البصري )

اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو وزیر زمین والوں میں سے نہ ہوں ۔ پس آسمان والوں میں سے میرے دو وزیر تو " جبرائیل " اور " میکائیل " علیہما السلام ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں ۔" (ترمذی )

تشریح :
" آسمان والوں " سے مراد فرشتے ہیں، ان فرشتوں میں سے جو دو فرشتے نبی اور رسول کے وزیر مقرر ہوتے ہیں ان کا کام عالم ملکوت سے اس نبی اور رسول کی امداد واعانت کرنا ہوتا ہے ۔
" زمین والوں " سے مراد اس نبی اور رسول کی امت کے لوگ اور اس کے رفقاء اور محبین ہیں، ان رفقاء ومحبین میں سے دو آدمی اس نبی اور رسول کے بہت قریب اور بہت زیادہ دانا دور اندیش اور باصلاحیت ہوتے ہیں ان کا وہی مقام ومرتبہ ہوتا ہے جو کسی بادشاہ کے وزیروں کا ان دونوں " وزیروں " کا کام اس عالم ناسوت میں اپنے نبی و رسول کی خدمت و نصرت کرنا ہوتا ہے اور جب کوئی مشورہ طلب مسئلہ پیش آتا ہے تو نبی ورسول ان سے مشورہ کرتا ہے ۔
اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرائیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام (بلکہ تمام فرشتوں ) سے افضل و اعلی ہیں اسی طرح یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے افضل واعلی ہیں جب کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تمام لوگوں میں سب سے افضل واعلی ہیں نیز" ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے الفاظ اس حقیقت کی دلیل ہیں کہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے افضل ہیں کیونکہ ان الفاظ میں حرف و اگرچہ مطلق جمع کے لئے ہے لیکن اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ یہ صاحب حکمت ودانائی کا کلام ہے اور ممکن نہیں کہ ان دونوں ناموں کے ذکر میں مذکورہ ترتیب (کہ پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام آیا اور پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ) حکمت ومصلحت سے خالی ہو، اور حکمت ومصلحت اس کے علاوہ کیا ہوسکتی ہے کہ جب دو ناموں کا ایک ساتھ ذکر کیا جاتا ہے تو پہلے وہی نام آتا ہے جو دوسرے سے افضل واعلی ہوتا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں