مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حضرت علی بن ابی طالب کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 704

غزوئہ خیبر کے دن سرفرازی

راوی:

وعن سهل بن سعد أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال يوم خيبر : " لأعطين هذه الراية غدا رجلا يفتح الله على يديه يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله " . فلما أصبح الناس غدوا على رسول الله صلى الله عليه و سلم كلهم يرجو أن يعطاها فقال : " أين علي بن أبي طالب ؟ " فقالوا : هو يا رسول الله يشتكي عينيه . قال : " فأرسلوا إليه " . فأتي به فبصق رسول الله صلى الله عليه و سلم في عينيه فبرأ حتى كأن لم يكن به وجع فأعطاه الراية فقال علي : يا رسول الله أقاتلهم حتى يكونوا مثلنا ؟ فقال : " انفذ على رسلك حتى تنزل بساحتهم ثم ادعهم إلى الإسلام وأخبرهم بما يجب عليهم من حق الله فيه فوالله لأن يهدي الله بك رجلا واحدا خير لك من أن يكون لك حمر النعم " . متفق عليه وذكر حديث البراء قال لعلي : " أنت مني وأنا منك " في باب " بلوغ الصغير "

اور حضرت سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن فرمایا : کل میں یہ جھنڈا (کہ جو کمانداری کی علامت ہے ) ایسے شخص کو عطا کروں گا کہ جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عطافر مائے گا اور وہ شخص اللہ اور اللہ کے رسول کو دوست رکھتا ہے اور اللہ اور اللہ کا رسول اس کو دوست رکھتے ہیں " چنانچہ تمام صحابہ نے اس انتظار اور شوق میں پوری رات جاگ کر گزاری کہ دیکھئے کل صبح یہ سرفرازی کس کے حصہ میں آتی ہے اور جب ) صبح ہوئی تو ہر شخص اس آرزو کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کہ جھنڈا اسی کو ملے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (تمام صحابہ پر نظر ڈال کر فرمایا کہ " علی ابن ابی طالب کہاں ہیں " دراصل حضرت علی آشوب چشم میں مبتلا ہوگئے تھے اور اس وجہ سے اس وقت وہاں حاضر نہیں تھے ) صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آنکھوں نے ان کو پریشان کر رکھا ہے (اور اس عذر کی بنا پر وہ یہاں موجود نہیں ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی کو بھیج کر ان کو بلوالو ، چنانچہ حضرت علی کو بلا کر لایا گیا ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں ڈالا اور وہ آنکھیں ایک دم اس طرح اچھی ہوگئیں جیسے ان میں کوئی تکلیف اور خرابی تھی نہیں ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا ۔ حضرت علی (اس سرفرازی سے بہت خوش ہوئے اور ) بولے : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ان لوگوں (دشمنوں سے ) اس وقت تک لڑتا رہوں جب تک وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہو جائیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جاؤ اور نرمی وبردباری کے ساتھ چل کر ان (دشمنوں ) علاقہ میں پہنچو، پھر (سب سے پہلے ) ان کو اسلام کی دعوت دو اور ان کو اللہ کے وہ حقوق بتاؤ جو اسلام میں ان پر عائد ہوتے ہیں (اور پھر اگر وہ دعوت اسلام کو ٹھکرادیں تو ان سے جزیہ طلب کرو ، اگر وہ جزیہ پر صلح کرنے سے انکار کر دیں تو پھر آخر میں ان کے خلاف اعلان جنگ کرو اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو جائیں یا جزیہ دے کر اسلامی نظام کی سیاسی اطاعت قبول کرنے پر تیار نہ ہو جائیں ) پس (اے علی ) اللہ کی قسم ، یہ بات کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ کسی ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے ، تمہیں ملنے والے سرخ اور چوپائیوں سے کہیں بہتر ہے ۔" (بخاری ومسلم )

تشریح :
" خیبر " ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ سے ساٹھ میل دور ملک شام کی سمت واقع ہے ، یہ غزوہ ٧ھ میں پیش آیا تھا ۔
" پس " (اے علی ) اللہ کی قسم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عل کی جو راہ نمائی فرمائی تھی کہ کفار کو اپنے اسلام کی دعوت دیں تو اسی کی تاکید کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے کے جملے قسم کھا کر ارشاد فرمائے ، اس پر تاکید راہنمائی کی وجہ یہ احساس تھا کہ جنگ وقتال کی صورت میں اگرچہ مال غنیمت مثلا اعلی وعمدہ اونٹ اور چوپائے وغیرہ حاصل ہوتے ہیں لیکن اگر کفار کو نرمی وبردباری کے ساتھ اسلام کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ دعوت اکثر بارآور ہو جاتی ہے اور مخالفین اسلام کی بڑی تعداد جنگ وجدل کے بغیر مسلمان ہو جاتی ہے جو اسلام کا اصل منشاء ومقصد ہے علامہ ابن ہمام نے اسی بنیاد پر بڑی پیاری بات کہی ہے کہ : ایک مؤمن کا پیدا کرنا ہزار کفار کو معدوم کرنے سے بہتر ہے ۔"

یہ حدیث شیئر کریں