مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ عشرہ مبشرہ کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 737

حضرت زبیر کی فضیلت

راوی:

وعن جابر قال : قال النبي صلى الله عليه و سلم : " من يأتيني بخبر القوم يوم الأحزاب ؟ " قال الزبير : أنا فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " إن لكل نبي حواريا وحواري الزبير " متفق عليه

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ غزوہ احزاب (یعنی غزوہ خندق ) کے موقع پر ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کون شخص ہے جو (دشمن کے ) لوگوں کی خبر میرے پاس لائے ؟ زبیر بولے : میں لاؤں گا ۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کے حواری (یعنی خاص دوست اور مددگار ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر ہیں " (بخاری ومسلم )

تشریح :
حزب کی جمع ہے جس کے معنی " گروہ ' ' کے ہیں اس موقع پر چونکہ مختلف اسلام دشمن گروہ یعنی قریش اور غیر قریش کے قبائل اور مدینہ کے وہ یہودی جن کا تعلق بنوقریظہ اور جلاوطن بنونضیر سے تھا ، متحد اور جمع ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے آئے تھے اس لئے اس غزوہ کو " غزوہ احزاب " کہا جاتا ہے اس غزوہ میں دشمن کے لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی اور مجاہدین اسلام کل تین ہزار نفر دشمن دراصل مرکز اسلام کو تاخت وتاراج کردینے کے منصوبے کے تحت حملہ آور ہوا تھا اور اس کا ٹڈی دل لشکر تقریبا ایک مہینہ تک مدینہ کو گھیرے پڑا رہا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مجاہدین اسلام کی مدد سے دفاعی کاروائی کے طور پر مدینہ شہر کے گرد خندق کھودی تھی اور اس مناسبت سے اس غزوہ کو " غزوہ خندق " بھی کہا جاتا ہے ۔ وہ بڑے سخت دن تھے اور اہل اسلام نہایت پریشانیوں اور دشواریوں میں گھر کر رہ گئے تھے ۔ باقاعدہ صف آرائی اور جنگ کی نوبت نہیں آئی ، تاہم سنگ باری اور تیر اندازکے واقعات پیش آتے رہتے تھے ۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کا لشکر نازل کیا اور ایسی آندھی بھیجی کہ دشمن کے خیمے اکھڑے گئے ، چولہوں پر سے دیگچیاں اوندھی ہوگئیں جابجا ڈیروں میں آگ گل ہوگئی اور ہیبت ناک اندھیرا چھا گیا اور دشمن کا لشکر خوف ودہشت کے مارے راتوں رات بھاگ کھڑا ہوا ۔ ان دنوں چونکہ یہودیوں اور منافقوں کے سبب مدینہ شہر کے اندر اور دشمن کے محاصرہ کے سبب باہر تک ہرطرف ایسی خطرناک صورت حال تھی کہ جنگی مصالح ومفاد سے متعلق معلومات فراہم کرنا اور دشمنوں کے بارے میں خبریں منگانا سخت دشوار مرحلہ تھا ، اس لئے جب حضرت زبیر نے تمام خطرات اور دشواریوں کے باوجود اس خدمت کے لئے خود کو پیش کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زبردست تحسین فرمائی اور ان کو اپنا حواری ہونے کا اعزاز عطا فرمایا ۔

یہ حدیث شیئر کریں