مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے نازل ہونے کا بیان ۔ حدیث 77

حضرت عیسی علیہ السلام انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضئہ اقدس میں دفن کئے جائیں گے

راوی:

عن عبد الله بن عمرو قا ل قا ل رسول الله صلى الله عليه وسلم ينزل عيسى بن مريم إلى الأرض فيتزوج ويولد له ويمكث خمسا وأربعين سنة ثم يموت فيدفن معي في قبري فأقوم أنا وعيسى بن مريم في قبر واحد بين أبي بكر وعمر . رواه ابن الجوزي في كتاب الوفاء .

" حضرت عبداللہ ابن عمرو کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم زمین پر اتریں گے تو وہ نکاح کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی دنیا میں ان کی مدت قیام پینتالیس برس ہوگی پھر ان کی وفات ہو جائے گی اور وہ میری قبر یعنی میرے مقبرہ میں میرے پاس دفن کئے جائیں گے ( چنانچہ قیامت کے دن ) میں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دونوں ایک مقبرہ سے ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے درمیان اٹھیں گے اس روایت کو ابن جوزی نے کتب الوفا میں نقل کیا ہے ۔ "

تشریح :
" ان کی مدت قیام پینتالیس برس ہوگی ۔ " یہ بات بظاہر اس قول کے منافی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے ان کی عمر تینتیس سال تھی اور پھر آسمان سے زمین پر اترنے کے بعد وہ سات سال دنیا میں رہیں گے اسی طرح دنیا میں ان کی کل مدت قیام چالیس ہوتی ہے ؟ واضح رہے کہ آسمان سے اترنے کے بعد دنیا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رہنے کی مدت سات سال مسلم نے نقل کی ہے لہذا ایک یہ بات تو طے ہے کہ اوپر حدیث میں جو پینتالیس سال کی مدت نقل کی گئی ہے وہ دنیا میں ان کی مجموعی مدت قیام ہے کہ اس مدت میں ان کے آسمان پر اٹھائے جانے سے پہلے کا عرصہ قیام بھی شامل ہے اور آسمان سے اترنے کے بعد کی بھی مدت قیام رہا چالیس اور پینتالیس کا فرق تو اس سلسلہ میں یا تو یہ کہا جائے کہ چالیس سال والے قول میں کسور یعنی پانچ کو حذف کرکے پوری مدت مراد لی گئی ہے یا یہ کہ اس روایت کو راجح قرار دیا جائے جو صحیح یعنی مسلم میں منقول ہے ۔
" ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے درمیان اٹھیں گے " سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ حدیث میں " قبر " سے مراد مقبرہ یعنی روضہ مطہرہ ہے روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس میں ایک قبر کی جگہ خالی ہے اور وہ جگہ کسی کو بھی میسر " نہیں ہو سکی چنانچہ حضرت امام حسن کا انتقال ہوا تو لوگوں نے چاہا کہ ان کی قبر اس خالی جگہ بنائی جائے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جن کا وہ مکان تھا اس کے لئے راضی بھی ہوگئی مگر بنو امیہ کی شدید مخالفت کی وجہ سے حضرت حسن کو روضہ اقدس میں دفن نہیں کیا جاسکا پھر اس جگہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی تدفین کے لئے بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راضی ہوگئی تھیں مگر ان کی قبر بھی وہاں نہیں بن سکی یہاں تک کہ خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی لوگوں نے کہا کہ آپ کا گھر ہے ہم آپ کو اسی میں دفن کریں گے مگر انہوں نے کہا کہ میری مرضی یہ نہیں ہے تم لوگ مجھے میری سوکنوں کے قریب جنت البقیع میں دفن کرنا اس سے معلوم ہوا کہ وہ خالی جگہ جو کسی کو نصیب نہیں ہو سکی تو اس کے پیچھے قدرت کی یہ حکمت و مصلحت کار فرما تھی کہ وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر بنے گی ۔

یہ حدیث شیئر کریں