مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 775

فاطمہ کی موجودگی میں علی کو کسی اور عورت سے نکاح کی ممانعت

راوی:

شرح مسلم میں اس حدیث کے تحت لکھا ہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ کوئی ایسا کام کرنا جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ پہنچے بہر صورت حرام ہے اگرچہ وہ کام مباح ہی کیوں نہ ہو ۔ اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی کو ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے کی جو اجازت نہیں دی تو اس کی دو وجہیں تھیں ، ایک تو یہ کہ اس نکاح سے حضرت فاطمہ کو خفگی ہوتی اور ایک طرح سے ان کو دکھ پہنچتا اور حضرت فاطمہ کے دکھی ہونے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دکھ ہوتا اور یہ بات حضرت علی کے لئے تباہی کا باعث بنتی لہٰذا خود حضرت علی کے حق میں خیرخواہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت کا تقاضا یہی تھا کہ ان کو اس نکاح سے باز رکھا جائے دوسری وجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خوف تھا کہ اس نکاح سے حضرت فاطمہ کی غیرت وحمیت کے منافی ہونے کے سبب کہیں وہ سخت آزمائش اور ابتلاء سے دوچار نہ ہوجائیں ۔ بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ " میں اس بات کو منظور نہیں کرتا " سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ نہیں تھی کہ حضرت فاطمہ کی موجودگی میں کسی اور عورت سے نکاح کرنا علی کے لئے ممنوع ہے بلکہ ان الفاظ کے ذریعہ دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا اعلان کیا کہ قضاء وقدر الہٰی یوں ہے کہ علی کے نکاح میں فاطمہ اور بنت اور ابوجہل ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں ۔ لیکن دوسری روایتوں اور اقوال سے اس قول کی تائید نہیں ہوتی مثلا یحییٰ بن سعید بن القطان سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے عبداللہ بن داؤد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ " میں اس بات کو منظور نہیں کرتا ہاں اگر ابن ابی طالب نے ارادہ کر ہی لیا ہے تو میری بیٹی کو طلاق دے دیں اور ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کر لیں " کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے علی پر حرام تھا کہ وہ فاطمہ کی زندگی میں ان کے ساتھ کسی اور عورت کو اپنے نکاح میں رکھنی اور یہ حرمت قرآن کی آیات : وما اتٰکم فخذوہ ومانہکم عنہ فانتہوا (اے اہل ایمان ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ تمہیں دیں اس کو قبول کرو اور جس بات سے تم کو منع کریں اس سے باز رہو) سے ثابت ہوتی ہے ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ " میں منظور نہیں کرتا : تو علی کے لئے حلال اور جائز نہیں رہا تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت اور منظوری کے علی الرغم فاطمہ کی موجودگی میں کسی اور عورت سے نکاح کریں ۔ اسی طرح یحییٰ ابن سعید سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے عمربن داؤد سے سنا ، وہ کہتے تھے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ : فاطمہ میرے گوشت کا ٹکڑا ہے جو چیز فاطمہ کو بری معلوم ہوتی ہے وہ مجھ کو بھی بری معلوم ہوتی ہے اور جو چیزفاطمہ کو دکھ دیتی ہے وہ مجھ کو بھی دکھ دیتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت علی پر حرام ہوگیا تھا کہ وہ فاطمہ کی موجود گی میں کسی اور عورت سے نکاح کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ پہنچائیں جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے ماکان لکم ان توذوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( تمہارے لئے قطعی روا نہیں کہ رسول اللہ کو دکھ پہنچاؤ ) یحییٰ بن سعید کی ان دونوں روایتوں کی حافظ اور ابوالقاسم دمشقی نے نقل کیا ہے ۔
ایک روایت میں یوں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو چیز فاطمہ کو دل گرفتہ بناتی ہے وہ مجھ کو بھی دل گرفتہ کردیتی ہے اور جو چیز فاطمہ کو شگفتہ دل بناتی ہے شگفتہ دل کردیتی ہے ۔ جان لو قیامت کے دن نسبی رشتے کٹ جائیں گے صرف میرا نسبی ، اور سسرالی رشتہ باقی رہے گا ایک اور روایت میں ، جو حضرت ابوایوب سے منقول ہے ، یہ بیان کیا گیا ہے کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن (ایک مرحلہ پر ) عرش میں سے ایک آواز آوے گی جیسے منادی کرنے والا منادی کررہا ہے ۔
یااہل الجمع نکسوارء وسکم وغضوا ابصارکم حتی مرت فاطمۃ بنت محمد علی الصراط ۔
" اے اہل محشر! اپنے سرجھکالو اور اپنی آنکھیں بند کرلو تاآنکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ پل صراط پر سے گزر جائیں ، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فتمرمع سبعین الف جارئۃ من الحورالعین کمر البرق ۔ پس فاطمہ ستر ہزار حورمین باندیوں کے جلو میں پل صراط پر سے اس طرح گزر جائے گی جیسے بجلی گزر جاتی ہے ۔
روایتوں میں یہ بھی آتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر روانہ ہوتے تو سب سے رخصت ہونے کے بعد آخر میں حضرت فاطمہ سے ملنے کو آتے اور جب سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ کے پاس تشریف لاتے ۔

یہ حدیث شیئر کریں