مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قرب قیامت اور جو شخص مرگیا اس پر قیامت قائم ہوگئی کا بیان ۔ حدیث 82

قیامت کے بارے میں ایک سوال اور اس کا جواب

راوی:

وعن عائشة قالت كان رجال من الأعراب يأتون النبي صلى الله عليه وسلم فيسألونه عن الساعة فكان ينظر إلى أصغرهم فيقول إن يعش هذا لا يدركه الهرم حتى تقوم عليكم ساعتكم . متفق عليه

" حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ کچھ دیہاتی لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا کرتے اور یہ پوچھا کرتے تھے کہ قیامت کب آئے گی ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یہ سن کر ) اس بچھ کی طرف دیکھتے جو ان پوچھنے والوں کے ساتھ ہوتا تھا اور پھر فرماتے کہ اگر یہ بچہ زندہ رہا تو یہ بڑھاپے کی عمر تک پہنچنے نہیں پائے گا کہ تم پر تمہاری قیامت ہو جائے گی ۔ " ( بخاری ومسلم )

تشریح :
" اگر یہ بچہ زندہ رہا الخ " کا مطلب یہ تھا کہ اس بچہ کے بڑھاپے کی عمر تک پہنچنے سے پہلے تم سب وفات پا جاؤ گے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا مذکورہ مدت کے عرصہ کے بعد ایک نسل کے خاتمہ اور ایک قرن یعنی عہد کے اختتام پذیر ہو جانے کی طرف اشارہ فرمایا اور یہ ایک پوری نسل کا ختم ہو جانا اور ایک زمانہ کا اپنی مدت کو پہنچ کر اختتام پذیر ہو جانا ) ایک طرح سے قیامت ہی ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کو " ساعتکم " " تمہاری قیامت سے تعبیر فرمایا اس حدیث کے سلسلہ میں زیادہ واضح بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ پوچھنے والوں نے " قیامت کبری " کے بارے میں پوچھا اور چونکہ ان کا یہ سوال ایسا تھا جس کا صحیح جواب دینا ممکن ہی نہیں تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکیمانہ اسلوب میں مذکورہ جواب عنایت فرمایا ۔
ساعتکم " ( تمہاری قیامت ) " اس مراد بعض حضرات کے نزدیک قیامت صغری یعنی پوچھنے والوں کا مر جانا " ہے اور بعض شارحین نے اس سے " قیامت وسطی " مراد لی ہے، جس کا مطلب ان جیسی عمر رکھنے والے سب لوگوں کا مر جانا ہے اور یہ طے ہے کہ یہ بات اکثر وغالب کے اقرار کے اعتبار سے فرمائی گئی ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں