مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ مناقب کا جامع بیان ۔ حدیث 850

حضرت انس کی والدہ ام سلیم اور حضرت بلال کی فضیلت

راوی:

وعن جابر أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " أريت الجنة فرأيت امرأة أبي طلحة وسمعت خشخشة أمامي فإذا بلال " . رواه مسلم

" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھ کو جنت دکھائی گئی تو میں نے اس میں ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کو دیکھا، پھر میں نے اپنے آگے قدموں کی چاپ سنی تو کیا تو دیکھتا ہوں کہ بلال ہیں (جو آگے آگے جنت میں چلے جا رہے ہیں ) ۔ " (مسلم )

تشریح :
ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی " سے مراد حضرت ام سلیم ہیں جو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ماجدہ ہیں ۔ ان کے بارے میں مختلف اقوال ہیں ۔ ان کا پہلا نکاح مالک بن نضر سے ہوا تھا اور اسی سے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے ، مالک بن نضر مشرک تھا اور شرک ہی کی حالت میں مارا گیا ، اس کے بعد ام سلیم مسلمان ہوگئیں اور ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے نکاح کا پیغام دیا اس وقت تک ابوطلحہ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا چنانچہ حضرت ام سلیم نے ان کا پیغام رد کردیا اور ان کو اسلام کی دعوت دی ابوطلحہ نے اسلام قبول کیا تو حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے نکاح کرلیا اور کہا کہ میں خود کو تمہارے اسلام کے عوض تمہاری زوجیت میں دیتی ہوں ، تمہارا یہ اسلام قبول کرنا ہی میرا مہر ہے رضی اللہ تعالیٰ عنہما :
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابورباح کے بیٹے تھے اور حضرت ابوبکر صدیق کے آزاد کردہ غلام ہیں ، نہایت قدیم الاسلام ہیں مکہ میں اپنے اسلام کا سب سے پہلے اعلان واظہار کرنے والے یہی ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن خاص تھے انہوں نے غزوہ بدر اور اس کے بعد جہادوں میں شرکت کی ، آخر میں شام چلے گئے اور وہیں کے سکونت پزیر ہوگئے تھے ۔ ٢٠ھ میں بمقام دمشق فوت ہوئے ، اور باب الصغیر میں دفن کئے گئے اس وقت ان کی عمر ٦٣سال تھی انہوں نے اپنا کوئی وارث نہیں چھوڑا ، صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کو ان سے روایت حدیث کا شرف حاصل ہے ، حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو قبول اسلام کی " پاداش " میں کفار مکہ کے سخت ظلم وستم کا نشانہ بنے تھے ۔ امیہ بن خلف ان کو نہایت سخت اذیتیں پہنچایا کرتا تھا اور تقدیر الہٰی سے ایسا ہوا کہ غزوہ بدر میں وہ موذی حضرت بلال ہی کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا ، ایک روایت میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے ۔ ابوبکر سیدنا واعتق سیدنا یعنی ابوبکر ہمارے آقا ہیں اور انہوں نے ہمارے آقا (بلال ) کو آزاد کیا ۔
امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی مسند میں نقل کیا ہے کہ سب سے پہلے جن لوگوں نے اسلام کا انکشاف واظہار کیا وہ سات ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، کی والدہ حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، اور حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ، پس اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو دشمنان دین کی اذیتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کے ذریعہ محفوظ رکھا ، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کے قبیلہ وخاندان کے سبب تحفظ حاصل رہا ، باقی پانچوں کو مشرکوں نے کمزور ولاچار جان کر اپنا ہدف بنا لیا ۔ وہ ظالم ان کو وحشیانہ سزائیں دیتے تھے ، یہاں تک کہ ان کو لوہے کی زرہیں پہناکر تپتی ہوئی دھوپ میں ڈال دیا کرتے تھے ۔ پھر ان پانچوں میں سے سوائے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے پنجے سے نجات دلائی اور ان کو ذی عزت بنادیا ۔ مگر بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کمزور ولاچار ہی رہے ، اللہ کی راہ میں مصائب وشدائد سے بچانے والی کوئی خاندانی وقبائلی طاقت ان کو حاصل نہیں ہوئی ۔ مشرکین مکہ کی ظالمانہ گرفت ان پر سخت سے سخت ہوگئی، انہوں نے ان کو مکہ کے اوباش لونڈوں کے سپرد کردیا ، وہ لونڈے ان کو (رسیوں میں جکڑ کر ) مکہ کے گلی کوچوں میں گھسٹیتے پھرتے تھے اور ان کی زبان پر احد احد (اللہ ایک ہے ) کانعرہ ہوتا تھا ۔

یہ حدیث شیئر کریں