مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ مناقب کا جامع بیان ۔ حدیث 851

جن صحابہ کو قریش نے حقیر جانا ان کو اللہ تعالیٰ نے عزت عطا کی

راوی:

وعن سعد قال : كنا مع النبي صلى الله عليه و سلم ستة نفر فقال المشركون للنبي صلى الله عليه و سلم : اطرد هؤلاء لا يجترؤون علينا . قال : وكنت أنا وابن مسعود ورجل من هذيل وبلال ورجلان لست أسميهما فوقع في نفس رسول الله صلى الله عليه و سلم ما شاء الله أن يقع فحدث نفسه فأنزل الله تعالى : [ ولا تطرد الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي يريدون وجهه ] . رواه مسلم

اور حضرت سعد بن ابی وقاص (جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ آدمی تھے (مکہ کے ) مشرکین (میں سے بعض سرداروں نے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ تم ( اگر چاہتے ہو کہ ہم لوگ تمہارے پاس آئیں جائیں ، تمہاری دعوتی باتیں سنیں اور قبول اسلام کے بارے میں سوچیں تو اپنے ساتھیوں میں سے ) ان لوگوں کو ( جو آزاد کردہ غلام ہیں اور ہماری سماجی زندگی میں بے وقعت وبے حیثیت مانے جاتے ہیں اپنی مجلس سے ) دور رکھو تاکہ یہ لوگ (ہمارے برابر میں بیٹھنے اور ہمارے ساتھ بات چیت میں شریک ہونے کا فائدہ اٹھا کر ) ہم پر جری اور دلیر نہ ہوجائیں ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ کہ ان چھ آدمیوں میں ایک تو میں تھا ، ایک عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ، ایک قبیلہ ہذیل کا تھا اور دو آدمی اور تھے ، جن کے نام میں نہیں بتاتا ۔ (ان سرداروں کا مطالبہ سن کر ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال میں وہ بات آئی جو اللہ نے چاہا کہ آئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس بارے میں سوچا ہی تھا کہ یہ آیت نازل ہوئی : (وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَه ) 6۔ الانعام : 52) یعنی ان لوگوں کو نہ ہٹائیے جو صبح وشام اپنے رب کو یاد کرتے اور پکارتے ہیں اور اس (عبادت وذکر ) سے ان کا مقصد اپنے رب کی خوشنودی چاہنے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا ۔ " (مسلم )

تشریح :
دو آدمی اور تھے : کے تحت شارحین نے لکھا ہے کہ وہ دونوں آدمی حضرت خباب بن ارت اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور بیان کرنے والے نے جو یہ کہا ہے کہ " جن کے نام میں نہیں بتاتا " تو یہ بات انہوں نے اس بناء پر کہی کہ اپنی کس مصلحت کے تحت وہ ان دونوں ناموں کا ذکر کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ یا جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے، انہوں نے یہ نام اس لئے نہیں بتائے کہ روایت حدیث کے وقت ان کو یاد نہیں رہا تھا کہ وہ دو آدمی کون تھے ، تاہم روایت کے الفاظ سے پہلا ہی قول زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔
" رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال میں وہ بات آئی ، یعنی وہ سرداران قریش چونکہ اپنی سماجی برتری و وجاہت کے زعم میں یہ بات گوارا نہیں کرتے تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھیں تو اس مجلس میں وہ مسلمان بھی موجود ہوں اور برابری کی سطح پر شریک گفتگو رہیں جو کبھی غلام ہوا کرتے تھے ، اور اس اعتبار سے قریش مکہ کی سماجی زندگی میں ان کو حقیر و کمتر مانا جاتا تھا لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لالچ میں کہ شائد ان سرداران قریش کو اسلام کی توفیق نصیب ہوجائے ، ان کی بات رکھنے کا ارادہ فرمایا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسئلہ بہت اہم تھا ۔ ایک طرف تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شدید خواہش کہ اتنے بڑے بڑے سرداران قریش اسلام قبول کر لیں ، دوسری طرف ان کا مطالبہ تھا جس سے بعض مخلص اور جان نثار مسلمانوں کی تحقیر ہوتی تھی ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اس طرح کی تدبیر سوچ رہے تھے جس سے ان سرداروں کی تالیف قلب بھی ہوجائے جو آخر کار ان کے قبول اسلام کا باعث بن سکے، اور اسلام کی نظر میں ان مخلص مسلمانوں کو جو عزت وتوقیر ہے اس کو بھی تحفظ حاصل رہے ۔ اس کی صورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں یہ آئی ہوگی کہ جب وہ سرداران قریش مجلس میں بیٹھے ہوئے ہوں تو وہ مسلمان از خود مجلس میں نہ آئیں یا اگر وہ مجلس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پہلے سے ہی موجود ہوں اور سرداران قریش آجائیں تو از خود اٹھ کر چلے جائیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان مخلص اور سچے مسلمانوں کو عزت وتوقیر قائم کرنے کے لئے اس صورت کو بھی ناپسند فرمایا اور مذکورہ آیت کریمہ کے ذریعہ گویا واضح فرمایا کہ ان سرداران قریش کے مطالبہ کو کسی صورت میں قبول نہیں کرنا چاہئے ۔

یہ حدیث شیئر کریں