مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت صرف برے لوگوں پر قائم ہوگی ۔ حدیث 91

قیامت سے پہلے کیا ہوگا ؟

راوی:

وعن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج الدجال فيمكث أربعين لا أدري أربعين يوما أو شهرا أو عاما فيبعث الله عيسى ابن مريم كأنه عروة بن مسعود فيطلبه فيهلكه ثم يمكث في الناس سبع سنين ليس بين اثنين عداوة ثم يرسل الله ريحا باردة من قبل الشام فلا يبقى على وجه الأرض أحد في قلبه مثقال ذرة من خير أو إيمان إلا قبضته حتى لو أن أحدكم دخل في كبد جبل لدخلته عليه حتى تقبضه قال فيبقى شرار الناس في خفة الطير وأحلام السباع لا يعرفون معروفا ولا ينكرون منكرا فيتمثل لهم الشيطان فيقول ألا تستجيبون ؟ فيقولون فما تأمرنا ؟ فيأمرهم بعبادة الأوثان وهم في ذلك دار رزقهم حسن عيشهم ثم ينفخ في الصور فلا يسمعه أحد إلا أصغى ليتا ورفع ليتا قال وأول من يسمعه رجل يلوط حوض إبله فيصعق ويصعق الناس ثم يرسل الله مطرا كأنه الطل فينبت منه أجساد الناس ثم ينفخ فيه أخرى فإذا هم قيام ينظرون ثم يقال يا أيها الناس هلم إلى ربكم وقفوهم إنهم مسؤولون . فيقال أخرجوا بعث النار . فيقال من كم ؟ كم ؟ فيقال من كل ألف تسعمائة وتسعة وتسعين قال فذلك يوم يجعل الولدان شيبا وذلك يوم يكشف عن ساق . رواه مسلم .

" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " دجال نکلے گا اور چالیس تک رہے گا حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم ، اس موقع پر چالیس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کیا تھی آیا چالیس دن یا چالیس مہنیے اور یا چالیس سال پس اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھیجے گا جو گویا عروہ ابن مسعود کی شکل وصورت کے ہوں گے ( یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام شکل وصورت میں عروہ ابن مسعود کے مشابہ ہوں گے ) وہ دجال کو تلاش کریں گے اور اس کو مار ڈالیں گے ، اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا والوں میں سات سال تک رہیں گے اور اس عرصہ میں دو شخصوں کے درمیان بھی کوئی دشمنی وعداوت نہیں ہوگی پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجے گا ( جو اہل ایمان کو موت کے آغوش میں پہنچادے گی چنانچہ اس وقت روئے زمین پر ایسا کوئی شخص باقی نہیں رہے گا جس کے دل میں رائی برار بھی نیکی یا ایمان میں سے کچھ ہوا اور وہ ہوا اس کی روح قبض نہ کرے یہاں تک کہ اگر تم میں سے کوئی شخص ( بالفرض ) پہاڑ کے اندر بھی چلا گیا ہوگا تو وہ ہوا پہاڑ میں داخل ہو کر اس شخص کا پیچھا کریگی اور اس کی روح قبض کر کے چھوڑے گی " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے بعد ( روئے زمین پر ) صرف بدکار وشریر لوگ باقی رہ جائیں گے جو پرندوں کے مانند سبک رو اور تیز رفتار اور درندوں کی مانند مضبوط وسخت ہوں گے وہ نہ تو نیکی وبھلائی سے واقف ہوں گے اور نہ برائی وبدکاری سے اجتناب کریں گے پھر شیطان ( کسی معزز وقابل تکریم انسان کی شکل وصورت اختیار کر کے ان کے پاس آئے گا اور کہے گا کہ ( تم لوگ جس طرح فسق وفجور میں مبتلا ہو اس پر ) کیا تم کو شرم وحیا نہیں آتی ہے گویا یہ شیطان کا مکرو تلبیس ہوگا کہ وہ اس حیلے سے ان کو بت پرستی کی طرف لائے گا ) وہ لوگ شیطان سے کہیں گے تم بتاؤ ہم کیا کریں ( یعنی ہمارے بارے میں جو تمہارا مقصود ہے اس کو ظاہر کرو تاکہ ہم اس کے مطابق عمل کریں ) پس شیطان ان کو بت پوجنے کا حکم دے گا یعنی شیطان ان کو اس فریب میں مبتلا کرے گا کہ تم لوگ وسیلہ اختیار کرنے کے طور پر بتوں کو پوجنے لگو تاکہ اللہ تم سے راضی ہو چنانچہ کفار یہی کہا کرتے تھے کہ ہم بتوں کو محض اللہ کو خوش کرنے کے لئے پوجتے ہیں اور قرآن نے ان کی اس خام خیالی کی خبر ان الفاظ میں دی ہے ما نعبد ہم الا لیقربونا الی اللہ زلفا ویقولون ہولاء شفعاؤ نا عند اللہ ۔ بہر حال وہ لوگ شیطان کے کہنے کے مطابق بت پرستی کرنے لگیں گے اور ان کے اعمال واخلاق انتہائی پست ہو جائیں گے لیکن ان کے ان برے اعمال کے باوجود ان کے رزق میں فراوانی اور کثرت ہوگی اور وہ عیش وعشرت کی زندگی گزراتے ہوں گے پھر قیامت قائم کرنے کے لئے ) صور پھونکا جائے گا اور جو بھی شخص اس کی آواز سنے گا وہ شخص اپنی گردن کو ایک جانب سے جھکائے گا اور دوسری جانب سے بلند کرے گا اس صور کی آواز کو سب سے پہلے سننے والا وہ شخص ہوگا جو اپنے اونٹ ( کو پانی پلانے ) کے حوض کو لیپ پوت رہا ہوگا اور وہ اسی حالت میں مر جائے گا ۔ اور دوسرے تمام لوگ بھی اسی طرح اپنے اپنے کام میں مشغولیت کے دوران ہی مر جائیں گے ( یعنی کسی کو بھی اتنی مہلت نہیں ملے گی کہ وہ جس کام میں مشغول ہے اس سے فارغ ہی ہو جائے ) اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش بھیجے گا جوشبنم کی طرح ہوگی ( یعنی ہلکی بارش جس کو پھوار بھی کہا جا سکتا ہے اور اس بارش کے ذریعہ لوگوں کے بدن اگ آئیں گے ( جو قبروں میں گل چکے ہوں گے ) پھر چالیس برس کے بعد ) دوسرا صور پھونکا جائے گا جس کو سن کر تمام لوگ ( جو اپنی قبروں اور زمین کے نیچے سے زندہ ہو کر نکلیں گے ) یکبارگی اٹھ کھڑے ہوں گے اور قیامت کے ہولناک منظر کو دیکھیں گے پھر ان سب سے کہا جائے گا کہ لوگو ! اپنے پروردگار کی طرف آو اور فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ ان سب کو روکے رکھو، ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا اور ان سے حساب لیا جائے گا پھر ( پروردگار کی طرف سے ) فرشتوں کی طرف سے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا جائے گا کہ کتنے لوگوں میں سے کتنے لوگوں کو الگ کیا جائے ؟ یعنی جن لوگوں کو دوزخ میں بھیجا جانا ہے ان کا تناسب کیا ہے اور ان کو کتنے لوگوں میں سے کس مقدار کے حساب سے الگ کیا جائے فرشتوں سے کہا جائے گا ہر ہزار شخص میں سے نو سو نناوے لوگوں کو دوزخ میں بھیجنے کے لئے الگ کر لو یہ کہہ کر آپ نے فرمایا یہ وہ دن ہے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور یہ وہ دن ہے جس میں امر عظیم کو ظاہر کیا جائے گا۔ " (مسلم )
اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت لا تنقطع الہجرۃ ۔ توبہ کے باب میں نقل کی چکی ہے ۔

تشریح :
مجھے نہیں معلوم اسی موقع پر " چالیس " سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا مراد تھی الخ ) کے سلسلہ میں مختصر طور پر اتنا بتا دینا کافی ہے کہ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ، دجال کی ٹھہرنے کی مدت بعض روایتوں میں چالیس سال اور بعض میں چالیس دن یا چالیس رات آئی ہے ، اور اسی موقع پر یہ بھی وضاحت کی جا چکی ہے کہ ان روایتوں میں مطابقت کی صورت کیا ہے ۔
" دو شخصوں کے درمیان بھی کوئی دشمنی وعداوت نہیں ہوگی " کے ذریعہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس دنیا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وہ زمانہ باہمی انس و رواداری ، اخوت ومحبت اور یگانگت ویک جہتی سے بھر پور ہوگا ۔ اس وقت تمام لوگ ایمان واخلاق کی کامل صفات کے حامل ہوں گے اور پورا معاضرہ اس طرح اعلی انسانی واخلاقی قدروں پر استوار ہوگا کہ کوئی کسی کا دشمن نہیں ہوگا ۔ کوئی کسی کے درپے آزار نہیں ہوگا ۔ کسی کے دل میں کوئی بغض وکینہ اور حسد نہیں ہوگا بلکہ تمام لوگ ایک دوسرے کے دوست ورفیق اور ایک دوسے کے ہمدرد اور بہی خواہ ہوں گے ! واضح رہے کہ اس دنیا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ٹھہرنے کی مدت جو سات سال بیان کی گئی ہے وہ دجال کو قتل کرنے کے بعد اس دنیا میں ان کے ٹھہرنے کی مدت ہے ورنہ یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس دنیا میں ان کی کل مدت حیات پینتالیس سال ہوگی ۔
" جو پرندوں کی مانند سبک رو اور تیز رفتار الخ " کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ برائی وبدکاری کے کاموں اور جنسی خواہشات کی تکمیل میں اس طرح سبک رو اور تیز رفتار ہوں گے جیسے پرندے ہوتے ہیں ، اور ظلم وتشدد کرنے ، فتنہ وفساد پھیلانے اور لوگوں کے جان ومال کو ہلاک وبرباد کرنے میں اس طرح شقی القلب اور سخت مزاج ہوں گے جس طرح درندے ہوتے ہیں ! پس اس جملہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ لوگ علم ودانائی حلم ومروت اور دوسرے انسانی واخلاقی اوصاف سے بالکل خالی ہوں گے بلکہ ان کے دل ودماغ اور مزاج وطبیعت پر ظلم وشقاوت ، دست درازی ، وحشت ودرندگی اور ہلاکت خیزی کا غلبہ ہوگا ۔
" وہ اپنی گردن کو ایک جانب سے جھکالے گا آلخ " کا مطلب یہ ہے کہ اس صور کی آواز اتنی زیادہ خوفناک اور ڈراونی ہوگی کہ اس کی دہشت سے لوگوں کے دل پھٹ جائیں گے اور جسمانی قوت وہمت معطل وبیکار ہو کر رہ جائے گی جس کا اثر گردن پر پڑے گا اور وہ ڈھلک جائے گی جیسا کہ خوف ودہشت کے وقت ہوتا ہے کہ سر اس طرح ایک طرف کو ڈھلک جاتا ہے کہ گردن کی ایک جانب تو جھک جاتی ہے اور اس کے مقابل کی دوسری جانب اوپر اٹھ جاتی ہے ۔
" ہر ہزار شخص میں سے نو سو ننانوے لوگوں کو الخ " سے معلوم ہوا کہ ایک ہزار لوگوے میں سے صرف ایک شخص جنت میں جائے گا اور باقی سب دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ گویا جنت میں جانے والوں کا تناسب فی ہزار ایک شخص ہوگا ! نیز زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ " ہر ہزار شخص میں سے نو سو ننانوے لوگوں سے مراد کافر ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے چنانچہ آگے باب الحشر میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت آ رہی ہے اس میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ دوزخیوں کی یہ جماعت یاجوج وماجوج کے لوگوں پر مشتمل ہو گی۔
" یہ وہ دن ہے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا یہ جملہ دراصل قیامت کے دن کی درازی وطوالت یا اس دن کی شدت وہولناکی سے کنایہ ہے جیسا کہ مصائب وآلام اور غم وشدائد کے زمانہ میں بوڑھا پا بہت جلد آجاتا ہے ۔ اسی طرح یہ وہ دن ہے جس میں امر عظیم کو ظاہر کیا جائے گا " بہی سخت ترین خوف وہولناکی اور شدت ومحبت سے کنایہ ہے واضح رہے کہ کشف ساق ( جس کا ترجمہ امر عظیم کو ظاہر کیا جانا ) کیا گیا ہے کے معنی اہل عرب میں یہی مشہور ہیں اور اس کی اصل یہ ہے کہ جب کسی شخص پر کوئی بہت سخت مشکل وپریشانی آتی ہے اور اس پریشانی سے نجات پانے کے لئے اس کو بہت زیادہ کوشش اور سعی کرنا ہوتی ہے تو وہ اپنی پنڈلی کے اوپر سے کرتہ کا دامن وغیرہ اٹھالیتا ہے جس کی وجہ سے اس کی پنڈلی کھل جاتی ہے اس اعتبار سے " کشف ساق اہل عرب کا ایک محاورہ بنا ہوا ہے جو کسی کام کی اہمیت ونزاکت اور اس کام کے سلسلے میں پیش آنے والی صعوبتوں اور سختیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے ! یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہے کہ یوم یکشف عن ساق ۔ کے الفاظ قرآن کریم میں بھی آئے ہیں اور حدیث میں مذکورہ جملہ کی صورت میں قرآن کے انھی الفاظ کو پیش کیا گیا ہے چنانچہ اس کی تفسیر کے سلسلہ میں بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن اکثرحضرات کے نزدیک اس کی زیادہ صحیح تاویل یہی ہے جو اوپر ذکر کی گئی ۔

یہ حدیث شیئر کریں