مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ صور پھونکے جانے کا بیان ۔ حدیث 96

قیامت کے دن کی کچھ باتیں یہودی عالم کی زبانی

راوی:

وعن عبد الله بن مسعود قال جاء حبر من اليهود إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا محمد إن الله يمسك السماوات يوم القيامة على أصبع والأرضين على أصبع والجبال والشجر على أصبع والماء والثرى على أصبع وسائر الخلق علىأصبع ثم يهزهن فيقول أنا الملك أنا الله . فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم تعجبا مما قال الحبر تصديقا له . ثم قرأ ( وما قدروا الله حق قدره والأرض جميعا قبضته يوم القيامة والسماوات مطويات بيمينه سبحانه وتعالى عما يشركون )
متفق عليه .

" اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ( ایک دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہود کا ایک عالم حاضر ہوا اور کہنے لگا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر زمینوں کو ایک انگلی پر پہاڑوں اور درختوں کو ایک انگلی پر پانی اور پانی کے نیچے کی تر مٹی کو ایک انگلی پر اور باقی تمام مخلوقات کو انگلی پر رکھے گا اور انگلیوں کوہلاتے ہوئے فرمائے گا ، میں ہوں بادشاہ میں ہوں اللہ ( یہ سن کر ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس یہودی عالم کی زبانی ان باتوں پر اظہار تعجب کرتے ہوئے مسکرائے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی (وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِه ڰ وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُه يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌ بِيَمِيْنِه سُبْحٰنَه وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ) 39۔ الزمر : 67) اور ( افسوس ہے کہ ) ان لوگوں نے ( یعنی مشرکوں نے ) خدائے تعالیٰ کی کچھ عظمت نہ کی ۔۔۔ جیسی عظمت کرنا چاہئے تھی حالانکہ ( اس کی وہ شان ہے کہ ) ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور تمام آسمان لپٹتے ہوں گے اس کے داہنے ہاتھ میں ( اور کوئی دوسرا ایسا ہے پس ) وہ پاک وبرتر ہے ان کے شرک سے ( اس روایت کو بخاری نے نقل کیا ہے ۔ "

تشریح :
اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر اور باقی تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھے گا اور ان انگلیوں کو ہلاتے ہوئے فرمائے گا " یہ سارے الفاظ بطور کنایہ وتمثیل ہیں اور حق تعالیٰ کی قدرت جلیلہ وعظمت کاملہ کے غلبہ واظہار کی تصویر کشی کے لئے ہیں ، نہ کہ انگلیوں اور انگلیوں کے ہلانے " کے حقیقی معنی ملحوظ ومقصود ہیں اس کی نظیر اہل عرب کا اسلوب بیان ہے کہ مثلا وہ جب کسی شخص کو جود وسخاوت جیسے اوصاف کے ساتھ متصف کرنا چاہتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ " اس شخص کے دونوں ہاتھ فراخ وکشادہ ہیں اگرچہ وہ شخص اپنے دونوں ہاتھوں سے محروم ہی کیوں نہ ہو ، کہ اس کے دونوں ہاتھ کسی حادثہ وغیرہ میں کٹ گئے ہوں یا پیدائشی طور پر بے ہاتھ والا ہو اسی طرح جب وہ کسی شخص کو سلطنت وحکومت کے وصف کے ساتھ ذکر کرنا چاہتے ہیں تو یوں کہتے ہیں کہ " فلاں شخص تخت پر بیٹھا !" اگرچہ اس کے بیٹھنے کے لئے کبھی کوئی تخت یا کوئی بھی چیز نہ رہی ہو پس اگر اہل عرب کے ان محاورات اور اس اسلوب بیان پر نظر ہو تو پھر قرآن وحدیث کے ان متشابہات کو سمجھنے میں بڑی آسانی ہو سکتی ہے جن میں اللہ کی طرف ہاتھ ، انگلی اور تخت وغیرہ کی نسبت کی گئی ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہاتھ سے یہ مراد ہے اور تخت سے یہ مراد ہے ۔
اس یہودی عالم کی مذکورہ باتیں سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار تعجب کرنا اور مسکرانا اس کی تکذیب کے لئے نہیں تھا بلکہ اس کی تصدیق کے لئے اور اس کو راست گو ظاہر کرنے کے لئے تھا ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں مذکورہ بالا آیت کی تلاوت اسی لئے فرمائی تاکہ یہودی نے جو کچھ کہا ہے اس کی تفصیلی وضاحت ہو جائے ۔

یہ حدیث شیئر کریں