مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب ۔ حدیث 968

اہل یمن کے بارے میں دعا

راوی:

عن أنس عن زيد بن ثابت أن النبي صلى الله عليه و سلم نظر قبل اليمن فقال : " اللهم أقبل بقلوبهم وبارك لنا في صاعنا ومدنا " . رواه الترمذي

" حضرت انس حضرت زید بن ثابت سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی سمت نظر اٹھائی اور پھر یوں دعا فرمائی : خدایا اہل یمن کے دلوں کو متوجہ فرما اور ہمارے صاع اور ہمارے مد میں ہمارے لئے برکت عطا فرما ۔ " (ترمذی )

تشریح :
اہل یمن کے دلوں کو متوجہ فرما " یعنی ان کے دلوں میں ہماری محبت اور ہمارے پاس آنے کا خیال ڈال دے تاکہ وہ یہاں مدینہ آنے پر آمادہ وتیار ہوجائیں ۔ واضح ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا اس پس منظر میں فرمائی کہ اس وقت مدینہ کی غذائی ضروریات کے لئے غلہ یمن ہی سے آیا کرتا تھا اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں غلہ کے لئے صاع اور مد میں برکت کی دعا فرمائی ، تاکہ زیادہ سے زیادہ غلہ یمن سے آئے ۔
" صاع " اور " مد" اس وقت کے دو پیمانوں کے نام ہیں جن کے ذریعہ غلہ کا لین دین ہوتا تھا صاع میں تقریبا ساڑھے تین سیر غلہ آتا تھا اور مد میں اس کا چوتھائی ، اور یہاں " صاع اور مد میں برکت " سے مراد غلہ میں برکت ہے گویا ظرف بول کر مظروف مراد لیا گیا ہے ۔
تورپشتی نے اس دعا کی وضاحت میں یہ لکھا ہے کہ دعا کے دونوں حصوں ہی سے تنگ حال اور تنگ معاش چلے آرہے تھے ، اب جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کے حق میں دعا فرمائی کہ وہ اپنا وطن چھوڑ کر دار الہجرت مدینہ چلے آئیں تو چونکہ ان کی تعداد زیادہ تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اتنے زیادہ لوگوں کے آجانے سے مدینہ کی معاشی حالت اور زیادہ تنگ وخستہ ہوسکتی ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کی غذائی ضرورت یعنی غلہ میں برکت کی دعا فرمائی تاکہ اہل مدینہ کو بھی معاش کی فراخی حاصل ہو اور ان لوگوں کو بھی جو اپنے وطن سے ہجرت کر کے مدینہ آنے والے ہوں ، اور اس طرح نہ تو مدینہ میں رہنے والے نئے آنے والوں کی وجہ سے تنگ و پریشان ہوں اور نہ ان لوگوں کے لئے مدینہ کا قیام دشواری وپریشانی کا سبب بنے جو ہجرت کرکے مدینہ آئیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں