صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 1332

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کی قبروں کا بیان، اقبرتہ، قبرت الرجل اقبر کے معنی ہیں میں نے اس کے لئے قبر بنائی، قبرتہ کے معنی ہیں میں نے اس کو قبر میں دفن کیا، کفاتا کے معنی ہیں کہ اسی پر زندگی بسر کریں گے اور مرنے کے بعد اسی میں دفن کئے جائیں گے ۔

راوی: قتیبہ , جریر بن عبدالمجید , حصین بن عبدالرحمن , عمرو بن میمون اودی

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيِّ قَالَ رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ اذْهَبْ إِلَی أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقُلْ يَقْرَأُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَيْکِ السَّلَامَ ثُمَّ سَلْهَا أَنْ أُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيَّ قَالَتْ کُنْتُ أُرِيدُهُ لِنَفْسِي فَلَأُوثِرَنَّهُ الْيَوْمَ عَلَی نَفْسِي فَلَمَّا أَقْبَلَ قَالَ لَهُ مَا لَدَيْکَ قَالَ أَذِنَتْ لَکَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ مَا کَانَ شَيْئٌ أَهَمَّ إِلَيَّ مِنْ ذَلِکَ الْمَضْجَعِ فَإِذَا قُبِضْتُ فَاحْمِلُونِي ثُمَّ سَلِّمُوا ثُمَّ قُلْ يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَادْفِنُونِي وَإِلَّا فَرُدُّونِي إِلَی مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ إِنِّي لَا أَعْلَمُ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْ هَؤُلَائِ النَّفَرِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ فَمَنْ اسْتَخْلَفُوا بَعْدِي فَهُوَ الْخَلِيفَةُ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا فَسَمَّی عُثْمَانَ وَعَلِيًّا وَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ وَسَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ وَوَلَجَ عَلَيْهِ شَابٌّ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ أَبْشِرْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِبُشْرَی اللَّهِ کَانَ لَکَ مِنْ الْقَدَمِ فِي الْإِسْلَامِ مَا قَدْ عَلِمْتَ ثُمَّ اسْتُخْلِفْتَ فَعَدَلْتَ ثُمَّ الشَّهَادَةُ بَعْدَ هَذَا کُلِّهِ فَقَالَ لَيْتَنِي يَا ابْنَ أَخِي وَذَلِکَ کَفَافًا لَا عَلَيَّ وَلَا لِي أُوصِي الْخَلِيفَةَ مِنْ بَعْدِي بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ خَيْرًا أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ وَأَنْ يَحْفَظَ لَهُمْ حُرْمَتَهُمْ وَأُوصِيهِ بِالْأَنْصَارِ خَيْرًا الَّذِينَ تَبَوَّئُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ أَنْ يُقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيُعْفَی عَنْ مُسِيئِهِمْ وَأُوصِيهِ بِذِمَّةِ اللَّهِ وَذِمَّةِ رَسُولِهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُوفَی لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ وَأَنْ يُقَاتَلَ مِنْ وَرَائِهِمْ وَأَنْ لَا يُکَلَّفُوا فَوْقَ طَاقَتِهِمْ

قتیبہ، جریر بن عبدالمجید، حصین بن عبدالرحمن، عمرو بن میمون اودی روایت کرتے ہیں میں نے عمر ابن خطاب کو دیکھا کہتے تھے کہ اے عبداللہ تو ام المومنین حضرت عائشہ کے پاس جا اور کہہ کہ عمربن خطاب آپ کو سلام کہتے ہیں پھر ان سے اجازت مانگ کہ میں اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن کیا جاؤں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ اس جگہ کو میں اپنے لئے پسند کرتی تھیں لیکن آج میں عمر کو اپنے اوپر ترجیح دوں گی جب عبداللہ بن عمر واپس ہوئے تو عمر نے فرمایا کہ کیا خبر لے کر آئے انہوں نے کہا کہ اے امیرالمومنین عائشہ نے آپ کو اجازت دیدی فرمایا آج میرے نزدیک اس خواب گاہ میں (دفن ہونے کی جگہ) سے زیادہ کوئی چیز اہم نہ تھی جب میں مرجاؤں تو مجھے اٹھا کر لے جاؤ پھر سلام کہنا اور عرض کرنا کہ عمر بن خطاب اجازت چاہتے ہیں اگر وہ اجازت دیں تو دفن کردینا ورنہ مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردیں۔ میں اس امر خلافت کا مستحق ان لوگوں سے زیادہ کسی کو نہیں سمجھتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اس حال میں کہ آپ لوگوں سے راضی تھے میرے بعد یہ جس کو بھی خلیفہ بنالے تو وہ خلیفہ ہے اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو اور عثمان، علی، زبیر، عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کا نام لیا اور ایک انصاری نوجوان آیا اور عرض کیا کہ اے امیرالمومنین آپ اللہ بزرگ وبرتر کی رحمت سے خوش ہوں آپ کا اسلام میں جو مرتبہ تھا وہ آپ جانتے ہیں پھر آپ خلیفہ بنائے گئے اور آپ نے عدل سے کام لیا پھر سب کے بعد آپ نے شہادت پائی۔عمر نے فرمایا کہ اے میرے بھتیجے کاش میرے ساتھ معاملہ مساوی ہوتا کہ اس کے سبب سے نہ مجھ پر عذاب ہوتا اور نہ ثواب ہوتا میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں کہ ان کا حق پہنچائیں اور ان کی عزت کی حفاظت کرنا اور میں انصار کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں جنہوں نے دارالجرت اور ایمان میں ٹھکانہ پکڑا ان کے احسان کرنے والوں کے احسان کو قبول کریں اور ان کے بروں کی برائی سے درگزر کریں اور میں اس سے وصیت کرتا ہوں اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ کا کہ ان کے (ذمیوں) عہد کو پورا کریں اور ان کے دشمنوں سے لڑے اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ لادیں۔

Narrated 'Amr bin Maimun Al-Audi:
I saw 'Umar bin Al-Khattab (when he was stabbed) saying, "O 'Abdullah bin 'Umar! Go to the mother of the believers Aisha and say, 'Umar bin Al-Khattab sends his greetings to you,' and request her to allow me to be buried with my companions." (So, Ibn 'Umar conveyed the message to 'Aisha.) She said, "I had the idea of having this place for myself but today I prefer him ('Umar) to myself (and allow him to be buried there)." When 'Abdullah bin 'Umar returned, 'Umar asked him, "What (news) do you have?" He replied, "O chief of the believers! She has allowed you (to be buried there)." On that 'Umar said, "Nothing was more important to me than to be buried in that (sacred) place. So, when I expire, carry me there and pay my greetings to her ('Aisha ) and say, 'Umar bin Al-Khattab asks permission; and if she gives permission, then bury me (there) and if she does not, then take me to the grave-yard of the Muslims. I do not think any person has more right for the caliphate than those with whom Allah's Apostle (p.b.u.h) was always pleased till his death. And whoever is chosen by the people after me will be the caliph, and you people must listen to him and obey him," and then he mentioned the name of 'Uthman, 'Ali, Talha, Az-Zubair, 'Abdur-Rahman bin 'Auf and Sad bin Abi Waqqas.
By this time a young man from Ansar came and said, "O chief of the believers! Be happy with Allah's glad tidings. The grade which you have in Islam is known to you, then you became the caliph and you ruled with justice and then you have been awarded martyrdom after all this." 'Umar replied, "O son of my brother! Would that all that privileges will counterbalance (my short comings), so that I neither lose nor gain anything. I recommend my successor to be good to the early emigrants and realize their rights and to protect their honor and sacred things. And I also recommend him to be good to the Ansar who before them, had homes (in Medina) and had adopted the Faith. He should accept the good of the righteous among them and should excuse their wrongdoers. I recommend him to abide by the rules and regulations concerning the Dhimmis (protectees) of Allah and His Apostle, to fulfill their contracts completely and fight for them and not to tax (overburden) them beyond their capabilities."

یہ حدیث شیئر کریں