صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ زکوۃ کا بیان ۔ حدیث 1349

باب (نیو انٹری)

راوی:

بَاب الرِّيَاءِ فِي الصَّدَقَةِ لِقَوْلِهِ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى إِلَى قَوْلِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا صَلْدًا لَيْسَ عَلَيْهِ شَيْءٌ وَقَالَ عِكْرِمَةُ وَابِلٌ مَطَرٌ شَدِيدٌ وَالطَّلُّ النَّدَى

صدقہ میں ریا کرنے کا بیان اللہ کے اس ارشاد کی بناء پر کہ اے ایمان والو اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور تکلیف پہنچا کر باطل نہ کرو اس شخص کی طرح جو اپنا مال دوسروں کے دکھانے کو خرچ کرتاہے اور اللہ تعالی اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتا ۔آخر آیت (واللہ لا یھدی القوم الکافرین ) اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا تک ۔ ابن عباس نے کہا صلدا کے معنی ہیں ایسی چیز جس پر کو چیز نہ ہو اور عکرمہ نے بیان کیا کہ ابل سے مراد شدید بارش ہے اور طل سے مراد تری ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں