صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 1837

باب (نیو انٹری)

راوی:

سُورَةُ بَرَاءَةَ وَلِيجَةً كُلُّ شَيْءٍ أَدْخَلْتَهُ فِي شَيْءٍ الشُّقَّةُ السَّفَرُ الْخَبَالُ الْفَسَادُ وَالْخَبَالُ الْمَوْتُ وَلَا تَفْتِنِّي لَا تُوَبِّخْنِي كَرْهًا وَ كُرْهًا وَاحِدٌ مُدَّخَلًا يُدْخَلُونَ فِيهِ يَجْمَحُونَ يُسْرِعُونَ وَالْمُؤْتَفِكَاتِ ائْتَفَكَتْ انْقَلَبَتْ بِهَا الْأَرْضُ أَهْوَى أَلْقَاهُ فِي هُوَّةٍ عَدْنٍ خُلْدٍ عَدَنْتُ بِأَرْضٍ أَيْ أَقَمْتُ وَمِنْهُ مَعْدِنٌ وَيُقَالُ فِي مَعْدِنِ صِدْقٍ فِي مَنْبَتِ صِدْقٍ الْخَوَالِفُ الْخَالِفُ الَّذِي خَلَفَنِي فَقَعَدَ بَعْدِي وَمِنْهُ يَخْلُفُهُ فِي الْغَابِرِينَ وَيَجُوزُ أَنْ يَكُونَ النِّسَاءُ مِنْ الْخَالِفَةِ وَإِنْ كَانَ جَمْعَ الذُّكُورِ فَإِنَّهُ لَمْ يُوجَدْ عَلَى تَقْدِيرِ جَمْعِهِ إِلَّا حَرْفَانِ فَارِسٌ وَفَوَارِسُ وَهَالِكٌ وَهَوَالِكُ الْخَيْرَاتُ وَاحِدُهَا خَيْرَةٌ وَهِيَ الْفَوَاضِلُ مُرْجَئُونَ مُؤَخَّرُونَ الشَّفَا شَفِيرٌ وَهُوَ حَدُّهُ وَالْجُرُفُ مَا تَجَرَّفَ مِنْ السُّيُولِ وَالْأَوْدِيَةِ هَارٍ هَائِرٍ يُقَالُ تَهَوَّرَتْ الْبِئْرُ إِذَا انْهَدَمَتْ وَانْهَارَ مِثْلُهُ لَأَوَّاهٌ شَفَقًا وَفَرَقًا وَقَالَ الشَّاعِرُ إِذَا قُمْتُ أَرْحَلُهَا بِلَيْلٍ تَأَوَّهُ آهَةَ الرَّجُلِ الْحَزِينِ

سورہ برأت کی تفسیر!
”ولیجہ‘ ‘ کسی چیز کو دوسری چیز میں داخل کرنا ”الشقة“ سے مراد سفر ہے‘ ”خبال“ کے معنی فساد اور موت دونوں کے آتے ہیں۔ ”ولاتفتنی“ مت جھڑک مجھ کو ”کرھا و کرھا“ یعنی زبردستی دونوں کا ایک ہی مطلب ہے ”مدخلا“ داخل ہونے کی جگہ ”یحمدون“ دوڑتے جائیں‘ ”مؤتفکات“ وہ بستیاں جو عذاب سے الٹ دی گئیں ”اھوی“ گڑھے میں دھکیل دیا ”عدن“ ہمیشہ کی جگہ یعنی جنت جسے بہشت بھی کہتے ہیں‘ معدن اسی سے نکلا ہے عرب کا منقولہ ہے ”معدن صدق“ جہاں صدق پیدا ہوتا ہے معدن سے نیت سےمراد لیتے ہیں ”خوالف“ خالف کی جمع ہے جس کے معنی ہیں پیچھے بیٹھنے والا ”یخلفہ فی الغابرین“ اسی سے نکلا ہے یعنی چھوڑ دیا اسے پیچھے رہنے والوں میں اور اگر خوالف کو خالفہ کی جمع مان لیا جائے تو اس سے مراد عورتیں ہوں گی ”خیرات“ فائدے ‘ نیکیاں‘ بھلائیاں ‘ اس کا واحد ”خیرة“ آتا ہے ”مرجون“ مہلت دیئے گئے جیسے ”موخرون“ تاخیر میں ڈالے گئے ملتوی کئے گئے ”الشفا“ کے معنی شفیر کے ہیں یعنی کنارہ ”جرف“ نالیاں ”ھار“ گرنے والی‘ تھورت البئر اور ”انھارت“ اسی سے نکلا ہے یعنی کنواں گر گیا ”لواہ“ نرم دل ہونا‘ خوف خدا سے ڈرنے والا‘ آہ زاری کرنے والا جیسے شاعر کہتا ہے
رات کو اٹھ کر جب میں اپنی اونٹنی کستا ہوں تو وہ غمزدہ مردوں کی آہ کرتی ہے

یہ حدیث شیئر کریں