صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 1849

اللہ تعالیٰ کا قول کہ جب غار میں دو میں سے ایک آپ تھے معنا کے معنی ناصرنا یعنی اللہ ہمارا مدد گار ہے سکینتہ بروزن فیلہ بمعنی سکون و اطمینان۔

راوی: عبداللہ بن محمد , یحیی بن معین , حجاج , ابن جریج , ابن ابی ملیکہ

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ مَعِينٍ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْکَةَ وَکَانَ بَيْنَهُمَا شَيْئٌ فَغَدَوْتُ عَلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ أَتُرِيدُ أَنْ تُقَاتِلَ ابْنَ الزُّبَيْرِ فَتُحِلَّ حَرَمَ اللَّهِ فَقَالَ مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ کَتَبَ ابْنَ الزُّبَيْرِ وَبَنِي أُمَيَّةَ مُحِلِّينَ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُحِلُّهُ أَبَدًا قَالَ قَالَ النَّاسُ بَايِعْ لِابْنِ الزُّبَيْرِ فَقُلْتُ وَأَيْنَ بِهَذَا الْأَمْرِ عَنْهُ أَمَّا أَبُوهُ فَحَوَارِيُّ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ الزُّبَيْرَ وَأَمَّا جَدُّهُ فَصَاحِبُ الْغَارِ يُرِيدُ أَبَا بَکْرٍ وَأُمُّهُ فَذَاتُ النِّطَاقِ يُرِيدُ أَسْمَائَ وَأَمَّا خَالَتُهُ فَأُمُّ الْمُؤْمِنِينَ يُرِيدُ عَائِشَةَ وَأَمَّا عَمَّتُهُ فَزَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ خَدِيجَةَ وَأَمَّا عَمَّةُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَدَّتُهُ يُرِيدُ صَفِيَّةَ ثُمَّ عَفِيفٌ فِي الْإِسْلَامِ قَارِئٌ لِلْقُرْآنِ وَاللَّهِ إِنْ وَصَلُونِي وَصَلُونِي مِنْ قَرِيبٍ وَإِنْ رَبُّونِي رَبُّونِي أَکْفَائٌ کِرَامٌ فَآثَرَ التُّوَيْتَاتِ وَالْأُسَامَاتِ وَالْحُمَيْدَاتِ يُرِيدُ أَبْطُنًا مِنْ بَنِي أَسَدٍ بَنِي تُوَيْتٍ وَبَنِي أُسَامَةَ وَبَنِي أَسَدٍ إِنَّ ابْنَ أَبِي الْعَاصِ بَرَزَ يَمْشِي الْقُدَمِيَّةَ يَعْنِي عَبْدَ الْمَلِکِ بْنَ مَرْوَانَ وَإِنَّهُ لَوَّی ذَنَبَهُ يَعْنِي ابْنَ الزُّبَيْرِ

عبداللہ بن محمد، یحیی بن معین، حجاج، ابن جریج، ابن ابی ملیکہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ جب ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں خلافت کے متعلق اختلاف ہوا تو میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ملاقات کی اور کہا کہ کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جنگ کرو اور اس طرح اللہ کے حرم کی توہین ہو ابن عباس نے فرمایا اللہ کی پناہ! یہ کام تو ابن زبیر اور بنی امیہ ہی کے حصہ میں لکھا گیا ہے میں تو اللہ گواہ ہے کہ کبھی یہ کام نہیں کرونگا۔ ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ جب لوگوں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے کہا کہ آپ ابن زبیر سے بیعت کر لیجئے تو وہ کہنے لگے کہ اس میں کیا مضائقہ ہے؟ وہ اس قابل ہیں کیونکہ ان کے والد حضور صلی الله علیه وسلم کے معاون تھے اور ان کے نانا حضور کے یار غار تھے اور ان کی ماں کو ذا لنطاقین ہونے کا شرف حاصل ہے اور ان کی خالہ ام المومنین ہیں ان کی پھوپھی حضرت خدیجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ تھیں ان کی دادی حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت عبدالمطلب ہیں جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی ہیں پھر وہ خود بھی ہمیشہ پاک دامن رہے ہیں اور قرآن کے قاری ہیں اللہ کی قسم!! اگر وہ ہم سے اچھا برتاؤ کریں اور کرنا ہی چاہئے کہ وہ ہمارے نزدیکی رشتہ دار ہیں اور اگر وہ ہم پر حاکم ہوں تو ہمارے برابر ہیں مگر عبداللہ بن زبیر نے بنی اسد، بنی تویت اور بنی اسامہ کو ہم سے زیادہ اپنا مقرب اور نزدیکی بنا لیا ہے اور عبدالملک نے اپنی چال میں غرور پیدا کرلیا ہے مگر ابن زبیر نے یہ کام اچھا نہیں کیا ہے کہ پھر ان ہی لوگوں کو اپنا دوست و مقرب بنا لیا ہے۔

Narrated Ibn Abi Mulaika:
There was a disagreement between them (i.e. Ibn 'Abbas and Ibn Az-Zubair) so I went to Ibn 'Abbas in the morning and said (to him), "Do you want to fight against Ibn Zubair and thus make lawful what Allah has made unlawful (i.e. fighting in Meccas?" Ibn 'Abbas said, "Allah forbid! Allah ordained that Ibn Zubair and Bani Umaiya would permit (fighting in Mecca), but by Allah, I will never regard it as permissible." Ibn Abbas added. "The people asked me to take the oath of allegiance to Ibn AzZubair. I said, 'He is really entitled to assume authority for his father, Az-Zubair was the helper of the Prophet, his (maternal) grandfather, Abu Bakr was (the Prophet's) companion in the cave, his mother, Asma' was 'Dhatun-Nitaq', his aunt, 'Aisha was the mother of the Believers, his paternal aunt, Khadija was the wife of the Prophet , and the paternal aunt of the Prophet was his grandmother. He himself is pious and chaste in Islam, well versed in the Knowledge of the Quran. By Allah! (Really, I left my relatives, Bani Umaiya for his sake though) they are my close relatives, and if they should be my rulers, they are equally apt to be so and are descended from a noble family.

یہ حدیث شیئر کریں