صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 1850

اللہ تعالیٰ کا قول کہ جب غار میں دو میں سے ایک آپ تھے معنا کے معنی ناصرنا یعنی اللہ ہمارا مدد گار ہے سکینتہ بروزن فیلہ بمعنی سکون و اطمینان۔

راوی: محمد بن عبید , میمون , عیسیٰ بن یونس , عمر بن سعید , ابن ابی ملیکہ

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مَيْمُونٍ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْکَةَ دَخَلْنَا عَلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فَقَالَ أَلَا تَعْجَبُونَ لِابْنِ الزُّبَيْرِ قَامَ فِي أَمْرِهِ هَذَا فَقُلْتُ لَأُحَاسِبَنَّ نَفْسِي لَهُ مَا حَاسَبْتُهَا لِأَبِي بَکْرٍ وَلَا لِعُمَرَ وَلَهُمَا کَانَا أَوْلَی بِکُلِّ خَيْرٍ مِنْهُ وَقُلْتُ ابْنُ عَمَّةِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَابْنُ الزُّبَيْرِ وَابْنُ أَبِي بَکْرٍ وَابْنُ أَخِي خَدِيجَةَ وَابْنُ أُخْتِ عَائِشَةَ فَإِذَا هُوَ يَتَعَلَّی عَنِّي وَلَا يُرِيدُ ذَلِکَ فَقُلْتُ مَا کُنْتُ أَظُنُّ أَنِّي أَعْرِضُ هَذَا مِنْ نَفْسِي فَيَدَعُهُ وَمَا أُرَاهُ يُرِيدُ خَيْرًا وَإِنْ کَانَ لَا بُدَّ لَأَنْ يَرُبَّنِي بَنُو عَمِّي أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَرُبَّنِي غَيْرُهُمْ

محمد بن عبید، میمون، عیسیٰ بن یونس، عمر بن سعید، ابن ابی ملیکہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ملا تو کہنے لگے کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلافت کے لئے کھڑے ہوئے ہیں میں نے دل میں کہا کہ میں غور کروں گا کہ آیا وہ اس کے مستحق ہیں یا نہیں ہاں میں نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے معاملہ میں کبھی کچھ غور نہیں کیا کیونکہ وہ ہر طرح اس کے لائق تھے پھر میں نے دل میں سوچا کہ وہ تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی کے بیٹے اور زبیر بن عوام کے صاحبزادے ہیں جو کہ عشرہ مبشرہ میں داخل ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یار غار کے پوتے ہیں اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھائی کے صاحبزادے اور حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ خود کو مجھ سے افضل خیال کرتے ہیں اور اس بات کی کوشش نہیں کرتے کہ میں ان کا مقرب بن جاؤ میں اپنے دل میں ان سے کبھی نہ کھنجوں گا مگر ابن زبیر میری طرف توجہ نہیں کرتے ہو سکتا ہے کہ وہ اس میں کچھ بھلائی پاتے ہوں لیکن میں اب اپنے چچا کے بیٹے (یعنی عبدالملک) کی بیعت کر لونگا کیونکہ غیر کے حاکم ہونے سے یہ بہتر ہے کہ ہمارے عزیز حاکم ہوں۔

Narrated Ibn Abi Mulaika:
We entered upon Ibn 'Abbas and he said "Are you not astonished at Ibn Az-Zubair's assuming the caliphate?" I said (to myself), "I will support him and speak of his good traits as I did not do even for Abu Bakr and 'Umar though they were more entitled to receive al I good than he was." I said "He (i.e Ibn Az-Zubair) is the son of the aunt of the Prophet and the son of AzZubair, and the grandson of Abu Bakr and the son of Khadija's brother, and the son of 'Aisha's sister." Nevertheless, he considers himself to be superior to me and does not want me to be one of his friends. So I said, "I never expected that he would refuse my offer to support him, and I don't think he intends to do me any good, therefore, if my cousins should inevitably be my rulers, it will be better for me to be ruled by them than by some others."

یہ حدیث شیئر کریں