باب (نیو انٹری)
راوی:
سُورَةُ يُونُسَ
بَاب وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَنَبَتَ بِالْمَاءِ مِنْ كُلِّ لَوْنٍ وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ هُوَ الْغَنِيُّ وَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ مُجَاهِدٌ خَيْرٌ يُقَالُ تِلْكَ آيَاتُ يَعْنِي هَذِهِ أَعْلَامُ الْقُرْآنِ وَمِثْلُهُ حَتَّى إِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِمْ الْمَعْنَى بِكُمْ يُقَالُ دَعْوَاهُمْ دُعَاؤُهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ دَنَوْا مِنْ الْهَلَكَةِ أَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَاتَّبَعَهُمْ وَأَتْبَعَهُمْ وَاحِدٌ عَدْوًا مِنْ الْعُدْوَانِ وَقَالَ مُجَاهِدٌ وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَيْرِ قَوْلُ الْإِنْسَانِ لِوَلَدِهِ وَمَالِهِ إِذَا غَضِبَ اللَّهُمَّ لَا تُبَارِكْ فِيهِ وَالْعَنْهُ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ لَأُهْلِكُ مَنْ دُعِيَ عَلَيْهِ وَلَأَمَاتَهُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى مِثْلُهَا حُسْنَى وَزِيَادَةٌ مَغْفِرَةٌ وَرِضْوَانٌ وَقَالَ غَيْرُهُ النَّظَرُ إِلَى وَجْهِهِ الْكِبْرِيَاءُ الْمُلْكُ
سورہ یونس کی تفسیر!
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ابن عباس کہتے ہیں کہ ”فاختلط“ کے معنی ہیں کہ بارش ہونے کی وجہ سے زمین پر ہمہ اقسام کا سبزہ اگا۔
باب ۷۱۷۔ وقالوا اتخذ اللہ ولدا سبحنہ کا مطلب ہے کہ وہ پاک ہے غنی ہے‘ زید بن اسلم کہتے ہیں کہ ”قدم صدق سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ اس سے خیر و فلاح مراد ہے ”تلک آیات“ یعنی یہ قرآن کی نشانیاں جیسے ”جرین بھم“ کے معنی وہ کشتیاں تم کو لے چلتی ہیں ”دعواھم“ کا معنی ان کی دعا ”احیط بھم“ سے مراد ان کو گھیر لیا‘ یعنی ہلاکت کے قریب پہنچے ‘ جیسے ”احاطت بھم خطیئتہ“ کے معنی ہیں کہ گناہوں نے ان کو ہر طرف سے گھیر لیا ہے”فاتبعھم“ کے معنی ہیں کہ وہ ان کے پیچھے چلا ”عدوا“ کے معنی ہیں زیادتی کے طور پر مجاہد کہتے ہیں کہ یعجل اللہ للناس الشر استعجالھم بالخیر سے مراد یہ ہے کہ انسان غصہ میں اپنی اولاد اور مال کو کوستا ہے کہ اے اللہ اس میں برکت نہ کر اور اس پر لعنت فرماتا ”لقضی الیھم اجلھم ان کی معیاد پوری ہو چکی ہے وہ جسے کوستا ہے تباہ ہو جاتا ہے‘ للذین احسنوا الحسنی جنہوں نے بھلائی کی ان کے لئے زیادہ مغفرت اور رضامندی ہے دوسرے کہتے ہیں کہ ” زیادہ “ سے مراد اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے ” الکبریا “ سے مراد بندگی اور بادشاہت ہے ۔
