صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 1890

باب (نیو انٹری)

راوی:

سُورَةُ الْحِجْرِ وَقَالَ مُجَاهِدٌ صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ الْحَقُّ يَرْجِعُ إِلَى اللَّهِ وَعَلَيْهِ طَرِيقُهُ لَبِإِمَامٍ مُبِينٍ عَلَى الطَّرِيقِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَعَمْرُكَ لَعَيْشُكَ قَوْمٌ مُنْكَرُونَ أَنْكَرَهُمْ لُوطٌ وَقَالَ غَيْرُهُ كِتَابٌ مَعْلُومٌ أَجَلٌ لَوْ مَا تَأْتِينَا هَلَّا تَأْتِينَا شِيَعٌ أُمَمٌ وَلِلْأَوْلِيَاءِ أَيْضًا شِيَعٌ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ يُهْرَعُونَ مُسْرِعِينَ لِلْمُتَوَسِّمِينَ لِلنَّاظِرِينَ سُكِّرَتْ غُشِّيَتْ بُرُوجًا مَنَازِلَ لِلشَّمْسِ وَالْقَمَرِ لَوَاقِحَ مَلَاقِحَ مُلْقَحَةً حَمَإٍ جَمَاعَةُ حَمْأَةٍ وَهُوَ الطِّينُ الْمُتَغَيِّرُ وَالْمَسْنُونُ الْمَصْبُوبُ تَوْجَلْ تَخَفْ دَابِرَ آخِرَ لَبِإِمَامٍ مُبِينٍ الْإِمَامُ كُلُّ مَا ائْتَمَمْتَ وَاهْتَدَيْتَ بِهِ الصَّيْحَةُ الْهَلَكَةُ

سورة حجر کی تفسیر!
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مجاہد کہتے ہیں کہ ”صراط علی مستقیم“ کا مطلب یہ ہے کہ وہ سچا راستہ جو اللہ تک جاتا ہے ”لبامام مبین“ کھلے راستہ پر‘ ابن عباس کہتے ہیں کہ ”لعمرک“ تیری جان کی قسم ”قوم منکرون“ یعنی لوط نے ان کو اجنبی جانا ”کتاب معلوم“ کا مطلب مدت معینہ ”لوما تاتینا“ کیوں ہمارے پاس نہیں لاتا ”شیع“ امتیں اور کبھی دوستوں کو بھی کہتے ہیں‘ ابن عباس نے کہا ہے کہ ’یھرعون“ کے معنی دوڑتے جلدی کرتے ہیں‘ وہ ”للمتوسمین“ دیکھنے والوں کے لئے ”سکرت“ ڈھانکی گئیں‘ مست کر دی گئیں ”بروجا“ چاند سورج کی منزلیں ”لواقح“ ملاقح“ ملحقہ“ ان سب کے ایک ہی معنی ہیں کہ یعنی بوجھل کرنے والیاں ”حمائ“ حماة“ کی جمع ہے ‘ معنی کیچڑ ہوتے ہیں‘ ”مسنون“ قالب میں ڈالی گئی”لاتوجل“ مت ڈر”دابر“ آخری حصہ یعنی جڑ یا دم ”امام مبین“ میں امام کے معنی ہیں جس کی پیروی کی جائے جس سے راہ ملے ”صیحتہ“ کے معنی ہلاکت اور بربادی وغیرہ۔

یہ حدیث شیئر کریں